اسوہ حسنہ اور بچے‎‎

عموماً بات کی جاتی ہے کہ بچے بڑے خراب ہو گئے ہیں،بدتمیز ہو گئے ہیں، کہنا نہیں مانتے،خودسر ہو گئے پیں۔ جبکہ دوسری طرف یہ بات بھی حقیقت ہے کہ بچوں کا ذہن سلیٹ کی مانند ہوتا ہے جو اس پر نقش کر دیا جائے نقش رہتا ہے۔ اسی لئے نپولن نے کہا کہ تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمھیں اچھی قوم دوں گا۔ حدیث کے مطابق بھی بچے فطرت پر پیدا ہوتے ہیں مگر یہ ان کے والدین ہیں جو انہیں مجوسی، یہودی بنا دیتے ہیں۔ گویا بچوں کو قصوروار ٹھہرانے سے پہلے ہمیں اپنے روئیوں، لہجوں، اندازتخاطب اور مزاج کو جانچنا ہو گا کہ بچے ہم ہی سے سیکھتے اور قبول کرتے ہیں بچے قدرت کا وہ حسین اور نازک تحفہ ہیں جو ہنستے کھیلتے ہی اچھے لگتے ہیں مگر نامناسب اور نازیبا روئیے ان کی شخصیت کو توڑ پھوڑ دیتے ہیں۔ ان کے کھلکھلاتے چہرے ماند پڑ جاتے ہیں، اچھے کام کی مناسب حوصلہ افزائی بھی عموما ہمارے معاشرے میں نایاب شے ہے لہٰذا بچے عدم اعتماد کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بچوں پر چلانے، مار دھاڑ اور رعب جمانا اور سخت روئیے بچوں کو وقتی طور پر تو شاید فرماں بردار بنا دیں کیونکہ بچے آپ کے ماتحت ہیں لیکن یہ طریقہ تربیت بچوں کو بڑوں سے بدظن کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کی شخصیت کو بھی توڑ دیتا ہے۔ حالانکہ خود آنحضرت صہ کا بچوں سے سلوک تو بہت شفقت بھرا تھا:-

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ طویل عرصہ تک حضور اکرم ﷺ کی خدمت کرتے رہے، وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اس پورے عرصہ میں میری کسی غلطی اور کوتاہی پر ڈانٹنا ڈپٹنا تو کجا کسی بات پر اف تک نہیں کیا، جب کہ وہ زمانہ بچپن اور لاابالی پن کا تھا۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی دس سال خدمت کی (اس پورے عرصہ میں ) مجھ کو آپ ﷺ نے کبھی اف بھی نہیں کہا اور نہ کبھی آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا اور یہ کام تم نے کیوں نہیں کیا۔ (بخاری و مسلم)

ایک یہ رویہ بھی عام ہے کہ بچوں کو قابو میں رکھنے اور بات منوانے کے لئے کسی بڑے شخص کا نام لے کر ڈرایا جاتا ہے جبکہ نبی رحمت کی شخصیت تو ایسی تھی کہ بچے ڈرتے نہیں تھے بلکہ گھل مل جاتے تھے۔ یقینس بڑوں کو بچوں کو ہراساں کرنے کی بجائے شفقت کا پلو تھامنا چاہیئے کیونکہ جو بچوں پر شفقت نہیں کرتا اس کا طریقہ کار مسلمانوں کا سا نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا،،،جو شخص ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا وہ ہم سے نہیں  (ترمذی)

خالد بن سعیدکی بیٹی ام خالد کہتی ہیں کہ ( ایک دن ) نبی کریم ﷺ کے پاس (ہدیہ) میں کچھ کپڑے آئے جن میں ایک چھوٹی سی کملی بھی تھی، آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اُم خالد کو میرے پاس لاؤ ، چنانچہ ام خالد کو (جو بچہ ہی تھیں) اٹھا کر آنحضرت ﷺ کے پاس لایا گیا، آپ ﷺ نے وہ کملی اٹھائی اور اپنے ہاتھ سے اُم خالد کو اُڑھا دی اور پھر جیسا کہ آپ ﷺ کی عادت تھی کہ جب کوئی نیا کپڑا پہنتا تو اس کو دعا دیتے، اُم خالد کو یہ دعا دی اس کپڑے کو پرانا کرو اور پھر پرانا کرو یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری عمر درازکرے اور بار بار تمہیں کپڑا استعمال کرنا اور بہت کپڑا پہننا نصیب ہو، اس کملی میں سبز یا زرد نشان بنے ہوئے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا: اُم خالد یہ کپڑا تو بہت عمدہ ہے سناہ حبشی زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ عمدہ اور بہترین کے ہیں، اُم خالد کہتی ہیں کہ پھر میں (آنحضرت ﷺ کی پشت مبارک کی طرف چلی ) گئی اور (بچپن کی ناسمجھی کی بنا پر ) مہر نبوت سے کھیلتی رہی۔ میرے باپ نے (یہ دیکھا تو ) مجھے ڈانٹنے اور منع کرنے لگے، رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اس کو کھیلنے دو منع نہ کرو۔ (مشکوٰ ة:۶۱۵)

معاشرے کے پسے ہوئے طبقے مثلا گھریلو ملازمین کے بچوں یا ملازم بچوں سے تحقیر آمیز رویہ رکھنا بھی عام بات ہے۔ سخت لہجے میں بات کرنا اور ان سے سخت کام لینا یا تشددکرنے کے رویے بھی پائے جاتے ہیں حالانکہ یہ طرز عمل کسی طرح بھی مسلمان معاشرے کے شایان شان نہیں۔

ایک رویہ یہ بھی بہت عام ہے کہ اپنے بچوں سے تو خوب محبت بھرا برتاؤ کیا جاتا ہے لیکن دوسرے رشتہ داروں اور خصوصا گلی محلے کے بچوں سے لئے دیے ہی رہا جاتا ہے یا سختی سے پیش آیا جاتا ہے حالانکہ یہ سراسر غیر اسلامی طرز عمل ہے۔آپ صہ نے تو اس باپ کا گواہ بننے سے بھی انکار کر دیا جو اپنی اولاد میں سے ایک کو غلام کا ہدیہ کرنا چاہتا تھا۔کیونکہ یہ سراسر غیر منصفانہ طرز عمل تھا اس لئے آپ صہ اس معاملے کے گواہ نہیں بنے۔اولاد کو تو والدین سے یکساں نسبت ہوتی ہے لہذا وہ بلا تفریق رحم اور شفقت کی حقدار ہوتی ہے البتہ حسن کردار یا ویسے ہی جذبات کا جھکاؤ کسی اولاد کی طرف زیادہ ہونا اور بات ہے۔حضرت یعقوب علیہ کا جھکاؤ اسی لئے حضرت یوسف علیہ کی جانب تھا کہ وہ اپنے بدخواہ بھائیوں کے برعکس حسن کردار کے مالک تھے۔بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ محفل میں کسی بچے کو تو خوب اہمیت دی جاتی ہے اور کسی کو توجہ سے محروم رکھا جاتا ہے یا کسی سے تو مصافحہ و معانقہ کیا جاتا ہے اور کسی کو نظر انداز کیا جاتا ہے یا کسی بھی طرح کچھ بچوں سے خصوصی سلوک و برتاؤ کیا جاتا ہے اور بعض دوسرے بچوں کو بلاوجہ نشانہ تنقید اور تمسخر بنایا جاتا ہے۔پھر ہمارے یہی روئیے جب بچوں میں جارحانہ پن پیدا کر دیتے ہیں،انہیں ناانصافی پر خاموش رہنا سکھا دیتے ہیں اور وہ bully(ہراساں)کرتے یا bully ہوتے ہیں تو ہم بچوں سے نالاں نظر آتے ہیں حالانکہ ہم نے ہی انہیں یہ روئیے شعوری یا لا شعوری، قصداً یا نادانی میں سکھائے ہوتے ہیں۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے باتمیز،باکردار اور بڑوں کا ادب کرنے والے ہوں،ظلم پر خاموش رہنے والے نہ ہوں اور مظلوم کے حق میں آواز اٹھانے والے ہوں تو پہلے ہمیں سیرت نبوی سے درس لینا ہو گا۔

حضرت جابر بن سمرہؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن) میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی (جب پڑھ چکے تو ) آنحضرت ﷺ اپنے گھر جانے کے لئے مسجد سے باہر نکلے تو آپ کے ساتھ میں بھی باہر آیا اتفاق سے آنحضرت ﷺ میرے رخساروں پر ہاتھ پھیرا، اس وقت میں نے آپ ﷺ کے دست مبارک کی ایسی ٹھنڈک اور خوشبو محسوس کی جیسے آپ ﷺ نے ابھی عطروں کے ڈبہ میں سے اپنا ہاتھ نکالا ہو (مشکوٰة)۔

بچے بہت حساس ہوتے ہیں انہیں احساس سے عاری ہونا مت سکھائیں۔ معصوم ہوتے ہیں اپنے رویوں سے ان کی معصومیت کو داغدار مت کریں۔ بہت چاہنے والے ہوتے ہیں ان کی چاہ کو مایوس نہ لوٹائیں۔ بچے ہمارا آئینہ ہیں اور اپنے عکس کو ہر کوئی خوبصورت ہی دیکھنا چاہتا ہے لہٰذا بچوں کے نبی ﷺ کے نقش قدم پر چلنے والے بن جائیں۔ اللہ بچوں کے دلوں میں آپ کی محبت ڈال دے گا۔ ان شاءاللہ