شاہیں کا جہاں اور

جو لوگ کلام اقبال کے مطالعہ میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ اس بات سے ضرور آگاہ ہیں کہ اقبال اپنے کلام میں جا بجا نوجوانوں سے مخاطب ہیں کبھی وہ انھیں اسلاف کے کارنامے سناتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کبھی ستاروں پر کمند ڈالنے کی ترغیب دیتے ہوئے نظر آتے ہیں

آج کے نوجوان کی زندگی ہم دیکھتے ہیں کہ cell phone سے شروع ہوتی ہے اور اسی کے گرد گھومتی رہتی ہے بیشک کوئی بھی ایجاد بذات خود بری نہیں ہے یہ ہم پر depend کرتا ہے کہ ہم اس کا استعمال کیسے کرتے ہیں اس سلسلے میں چھری کی مثال لے لیں اس کا مثبت استعمال یہ ہے کہ اس سے پھل اور سبزیاں کاٹی جائیں جبکہ منفی استعمال یہ ہےکہ اس سے کسی کو مارا جائے بلکل اسی طرح نوجوان اگر چاہیں تو cell phone کے مثبت استعمال سے وہ علمی، معاشی اور سیاسی انقلاب برپا کرسکتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کل کے نوجوان اپنا قیمتی وقت زیادہ تر ٹک ٹاک، فیس بک، اسنیپ چیٹ، یوٹیوب اور واٹس ایپ پر فضول ویڈیو دیکھنے میں ضائع کرتے ہیں۔

میں سب کو تو نہیں کہوں گی مگر 80 فیصد نوجوان آج کل سوشل میڈیا کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں انہیں زہنی طور پر یرغمال بنا لیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ سوشل میڈیا کا استعمال مثبت کاموں کے بجائے منفی اور تخریبی کاموں کے لیے کرتے ہیں اور ہم اتنے مجبور و بے بس ہیں کہ انھیں آزاد بھی نہیں کرا سکتے۔

اسکول اور یونیورسٹی کے طالب علموں میں سگریٹ نوشی سمیت دیگر منشیات کا استعمال جس تیزی سے بڑھ رہا ہے وہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ کوچنگ سینٹرز میں لڑکے اور لڑکیوں کا باہمی اختلاط دراصل اخلاقی انحطاط کی طرف جا رہا ہے اس کے علاوہ رہی سہی کسر موبائل فون فرینڈ شپ نے پوری کر دی ہے جس کے نتیجے میں گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کی خبریں ہم آئے دن اخباروں میں پڑھتے ہیں۔

آج کے نوجوان اپنا مقصد زندگی فراموش کر چکے ہیں یا توانھیں ٹھیک طرح سے بتایا ہی نہیں گیا کہ وہ کون ہیں؟ انھیں اس دنیا میں کس مقصد کیلئے بھیجا گیا ہے؟ انہیں اس بات کا بلکل بھی شعور نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں جو نعمتیں عطا کی ہیں روز قیامت ان کا حساب بھی دینا ہے۔

رب العالمین نے اس دنیا میں کوئی بھی چیز بیکار نہیں بنائی تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک جیتا جاگتا صحت مند نوجوان اپنے آپ کو بیکار اور بے مقصد کاموں میں لگا کے وقت اور زندگی دونوں کا ضیاع کرے۔

اے کاش کوئی ان نوجوانوں کو ان کی شناخت لوٹا دےوہ جان سکیں وہ سمجھ سکیں کہ انھیں اس دنیا میں ایک خاص مقصد کے تحت بھیجا گیا ہے وہ صرف نام کے مسلمان نہ بنیں بلک عمل سے ثابت کریں کہ وہ ان ہی اسلاف کے وارث ہیں جنہوں نے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا دیئے تھے اور جن کی ایجادات اور نظریات سے پوری دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے۔

کبھی اے نوجواں مسلم تدبّر بھی کیا تو نے،،،

وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا۔

دوسری طرف 20 فیصد ہی صحیح ایسے بھی نوجوان ہیں جو اپنے ملک و ملت کی سر بلندی کے لئے کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں جن کی آبیاری ٹھیک ہوئی ہے وہ بھی اسی فضا میں سانس لے رہے ہیں، اسی معاشرے میں رہتے ہیں وہ دوسروں کے لیے رول ماڈل ہیں اب یہ معاشرے کا فرض ہے کہ ایسے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ قابل اور با ہمت youth جو کہ جذبہ ایمانی سے سرشار ہوں وہ قوموں کی تقدیر بدل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ضرورت اب صرف اس بات کی ہے کہ خواب غفلت میں پڑے ہوئے نوجوانوں کو جھنجھوڑا جائے اور ان کو انکا مقصد حیات یاد دلایا جائے۔

اگر ہم اس مقصد میں کامیاب ہو گئے تو وہ دن دور نہیں کہ ہم اپنی گم شدہ میراث واپس پا لیں گے۔ ان شا اللہ۔