طفلِ مکتب ہی رہنے دو

آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے لوگ راتوں رات مشہور ہو جاتے ہیں بھلے آپ کو کچھ بھی نہ آتا ہو نہ کوئی ہنر نہ ہی کوئی قابلیت بلکہ الٹی سیدھی کسی بھی طرح کی اپنی یا بچوں کی ویڈیو بنا لی اور یو ٹیوب پر یا فیس بک پر ڈال دی اب جتنی زیادہ ویوز اتنا ہی زیادہ آپ مشہور ۔ یہ ٹرینڈ بہت زیادہ خطرناک ہو گیا ہےاور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اسکا شکار ہو رہے ہیں جن میں اساتذہ کرام بھی شامل ہیں۔

کلاس روم میں بچوں پر تشدد کرنا ویسے ہی ایک جرم ہے کجا یہ کہ ان کی ویڈیو بنا کے وائرل کی جائے پچھلے دنوں ایسی بہت سی ویڈیوز وائرل ہوئیں جن میں بچوں کے کلاس روم میں سونے کی، ڈانس کرنے کی، سبق یاد نہ ہونے پر بہانہ بنانے کی حتیٰ کہ بچوں کے چہرے پر تھپڑ رسید کرنے کی ویڈیوز ہیں اسکول انتظامیہ کو چاہیئے کہ اس سلسلے میں سخت کارروائی کریں اور کلاس روم میں موبائل فون لانے اور بچوں کی ویڈیو بنانے پر مکمل پابندی عائد کریں۔ بعض اوقات ٹیچرز یہ بھی تاویل پیش کر رہے ہوتے ہیں کہ بچہ بہت کیوٹ ہے یا اس کی حرکتیں بہت معصوم ہیں اس لئے ہم نے ان کی ویڈیو بنا کر آپلوڈ کی ہے اسکے پیچھے ہمارا کوئی اور مفاد نہیں ہے تو ایسے لوگوں کو بھی awareness دینے کی ضرورت ہے کہ والدین کی اجازت کے بغیر بچوں کی کسی بھی طرح کی ویڈیو بنانا جرم ہے جس کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔

بچے نازک اور معصوم ہوتے ہیں خواہ وہ مدرسہ میں پڑھنے والے ہوں یا اسکول میں ان ننھے بچوں کے جذبات و احساسات سے کھیلنے کی اجازت کسی کو نہیں دینی چاہیے۔

بچے ہمارا مستقبل ہیں اور اساتذہ مستقبل کے معمار ہیں ان کے پیشِ نظر یہ بات رہنی چاہیئے کہ ان ہی کلاس رومز میں کوئی مستقبل کا سائنسدان ہے تو کوئی انجنیئر، ڈاکٹر، وکیل،کھلاڑی، سیاست دان، مفتی یا پھر اسلامک اسکالر موجود ہے جن کی تعلیم و تربیت کی زمہ داری ان کے کاندھوں پر ہے لہٰذا وہ اپنی اس زمہ داری کو بطریق احسن پوراکرنے کی کوشش کریں بجائے اسکے کہ وہ اپنے یو ٹیوب چینل کو promote کرنے کے لئے معصوم بچوں کی ویڈیوز وائرل کریں۔ معذرت کے ساتھ سارے اساتذہ اس کام میں ملوث نہیں ہیں لیکن چند غیر تربیت یافتہ اساتذہ ہیں جنہیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری اولاد کو ہدایت یافتہ بنائے ۔آمین۔