افرادی ترقی میں چین کی شراکت

چین کی جانب سے گزشتہ سال کے اوائل میں ملک سے مطلق غربت کے خاتمے کا اعلان کیا گیا تھا جسے دنیا بھر میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے جدید انسانی تاریخ میں ایک معجزے سے تعبیر کیا گیا۔انسداد غربت، اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے 2030 کے ایجنڈے میں شامل نمایاں ترین ہدف ہے جس کا حصول دنیا بالخصوص ترقی پزیر ممالک کے عوام کی اولین امنگ ہے۔وسیع تناظر میں مقررہ ہدف سے 10 سال قبل دنیا کی آبادی کا تقریباً پانچواں حصہ رکھنے والے ملک سے انتہائی غربت کا خاتمہ عالمی سطح پر انسداد غربت اور ایک بہتر اور خوشحال دنیا کی تعمیر میں قابل ذکر شراکت ہے۔تاہم غربت کے خاتمے میں کامیابی کا حصول اس قدر آسان نہ تھا، دہائیوں کی جدو جہد اور کئی کٹھن مراحل کے بعد بلآ آخر کامیابی کا یہ زینہ عبور کیا گیا۔اس کا سہرا یقیناً کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے سر جاتا ہے جس نے انتہائی غربت کے خاتمے اور ایک جامع اعتدال پسند خوشحال معاشرے کی تعمیر کے لیے ملک کے معروضی حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اور دوسرے ممالک کے تجربات سے سیکھتے ہوئے غربت کے خاتمے کی حکمت عملی وضع کی۔

یہ امر قابل توجہ ہے کہ چین کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات فرد سے فرد، گاؤں سے گاؤں، قصبے سے قصبے، اور کاؤنٹی سے کاؤنٹی میں مختلف تھے، کیونکہ غربت کی وجوہات اور درجے میں کافی فرق تھا۔ خاص طور پر غربت کے خاتمے کے لیے اٹھائے گئے پانچ موثر اقدامات میں پیداوار میں اضافہ، غربت زدہ لوگوں کی مناسب گھروں میں منتقلی، ماحولیاتی معاوضہ جات کی فراہمی، تعلیمی معیار کی بہتر ی اور الاؤنس دینا شامل رہے ہیں۔اس ضمن میں صنعتی ترقی کی بدولت غربت کا خاتمہ، براہ راست، مؤثر اور پائیدار طریقہ ثابت ہوا، کیونکہ صنعتوں نے روزگار کے مواقع پیدا کیے اور لوگوں کی آمدنی میں اضافہ کیا.

غربت زدہ علاقوں میں مقامی وسائل اور خصوصیات کی بنیاد پر صنعتوں کو فروغ دینے کی حوصلہ افزائی کی گئی، اور ای کامرس اور سیاحت جیسے کاروبار کی نئی شکلیں وجود میں آئیں.انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت ای کامرس کو فروغ ملا جس سے لوگوں کی براہ راست آمدنی میں اضافہ ہوا۔ اس طرح دور دراز علاقوں سے مصنوعات کو نہ صرف چین بھر میں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی فروخت کے قابل بنایا گیا. ای کامرس کے انقلاب کی اہمیت یوں بھی عیاں ہوئی کہ اس نے تقریباً 7.71 ملین دیہی ملازمتیں پیدا کیں اور تقریباً 6.18 ملین غریب لوگوں کی آمدنی میں نمایاں اضافہ کیا۔

کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے اہم کردار کی بات کی جائے تو پارٹی کی مقامی تنظیموں اور ارکان نے انتہائی غربت کے خاتمے میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیاہے۔ صوبائی، میونسپل، کاؤنٹی، ٹاؤن شپ اور گاؤں کی سطح پر پارٹی سیکرٹریز غربت کے خاتمے کے امور کے ذمہ دار تھے۔ 2020 کے اواخر تک مجموعی طور پر 2 لاکھ 55 ہزار ٹیمیں اور 30 لاکھ سے زائد اعلیٰ مقامی حکام غربت کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر تعینات تھے۔ جب انتہائی غربت کے خلاف جنگ جیتی گئی تو 1800 سے زائد افراد دوسروں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے تھے۔پارٹی نے معاشرے کے تمام طبقوں بشمول ہر سطح کی حکومتوں اور مارکیٹ قوتوں کو مطلق غربت کے خاتمے کے لئے متحرک کیا۔ اس عمل میں ملک کے مشرقی اور مغربی علاقوں کے درمیان تعاون بھی انتہائی موثر ثابت ہوا۔2015 سے 2020 کے درمیان، نو مشرقی صوبوں نے مغربی اور وسطی علاقوں کے لیے 100 بلین یوآن (14.05 بلین ڈالر) سے زیادہ بجٹ فنڈز اور سماجی امداد مختص کی، لاکھوں عہدیداروں اور پیشہ ور افراد کا تبادلہ کیا گیا جبکہ 22 ہزار سے زیادہ کاروباری اداروں نے غریب علاقوں میں 1.1 ٹریلین یوآن سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو لوگوں کو ہمیشہ مقدم رکھنا اور عوام پر مبنی ترقی کے اصول پر عمل کرنا غربت کےکامیاب خاتمے کی کلید رہا ہے۔بلاشبہ اسی اصول کی روشنی میں ہی تمام غربت زدہ لوگوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے اور غربت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔چین کا انسداد غربت کا یہ ماڈل دنیا کے تمام ترقی پزیر ممالک کے لیے ایک مشعل راہ ہے جو بتاتا ہے کہ جب عوام کی مرکزیت پر مبنی فیصلے کیے جائیں گے تو کامیابی خود آپ کے قدم چومے گی اور آپ کو ہمیشہ عوام کی بھرپور تائید اور حمایت حاصل رہے گی۔