اسوہ رسول اور نوجوانوں کی ذمہ داریاں

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

اعلاۓ کلمة اللہ کے لیے ان نوجوانوں کا کردار مستحسن ہوتا ہے جو ایمان عمل صالح، بلند کردار و صبر و استقامت کے جوہر سے معمور ہوتے ہیں۔ یہ صالح نوجوان نہ صرف معاشرے کا اہم عنصر ہیں بل کہ گھر خاندان محلہ کے لیے بھی امن و امان و چین سکون کا باعث ہوتے ہیں ان نوجوانوں کی تربیت و کردار سازی میں نہ صرف والدین بل کہ دوست ساتھی عزیز رشتے دار و پڑوسی ودیگر سب ہی شریک ہوتے ہیں۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرتا ہےرسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ ہر مرض کی دوا، ہر مسئلے کا حل اور ہر چیلنج کا جواب ہے،

اللہ تعالی قرأن پاک میں فرماتا ہے،،،،،، لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہارے لیے بہترین نمونہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

اس آیت کے مخاطب آج کے نوجوان بھی ہیں۔ کون کامیاب ہونا نہیں چاہتا۔ کامیابی کی منزل پر پہنچنا آج ہر نوجوان کی آرزو ہے۔ خواہ وہ تعلیمی مدارج ہوں یا کاروباری اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو دنیا اور آخرت دونوں ہی کی کامیابی کی دعا مانگنے کی تعلیم دی ہے۔

اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے سب کچھ کر لینے کا عزم بیشتر نوجوانوں کا جنون بن چکا ہے کہ جنون ہی وہ واحد شے ہے جو آنے والی رکاوٹوں کوبھی عبور کروادیتا ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کامیابی کے لیے مداومت عمل یعنی مستقل مزاجی کی تلقین کی ہے کہ جو اخلاقی خوبی اپنی منزل کو پانے کے لیے اپنالی جائے اس کو مستقل و مسلسل کرتے جائیں کبھی اس کو نہ چھوڑیں کہ تھوڑا اور مستقل عمل اس عمل سے بہتر ہے جو زیادہ ہو اور جلد چھوڑ دیا جائے۔ تو ان صالح نوجوانوں کے لیے کامیابی کی کنجی اسی میں مضمر ہے کہ وہ اپنے اندر مستقل مزاجی پیدا کریں اور سیرت طیبہ کے ساتھ ایسا تعلق بنائیں کہ اپنی جان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پر قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کریں اپنے نفس کا مجاہدہ کریں جو انتہائی مشقت کا کام ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی سخت مشقت کی تھی عبادت کے زیر اثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں پر ورم آجاتا اور تب حضرت عائشہ ان سے استفسار کرتیں کہ آپ تو رحمت اللعالمین ہیں آپ کیوں اتنی مشقت میں اپنے آپ کو ڈالتے ہیں تب آپ صلی اللہ وسلم کا جواب ہوتا تو کیا میں اپنے رب کا شکر گذار بندہ نہ بنوں۔

یہ شکر گذاری یہ عاجزی آج مفقود ہے خصوصا نسل نو کا ہر فرد اپنی خود ساختہ محرومیوں پر شکوہ کناں ہے کبھی اسے والدین سے شکوہ ہوتا ہے کبھی اپنے اساتذہ سے کبھی اپنی قسمت سے تو کبھی اپنے ارد گرد بسنے والے افراد دوست ساتھی ہم وطنوں سے شکوہ ہے کہ اسے بھرپور توجہ نہیں دی اس کی خواہش تمنا کا گلا گھونٹ دیا گیا اسےاگے بڑھنے سے محروم کر دیا گیااور احساس محرومی کا شکار یہ نوجوان بجائے اپنے اندر محنت سے کچھ کر لینے سیکھ لینے کے عزم و جنون اور جوش پیدا کرنے کے، کسی معجزے اور کسی مسیحا کے انتظار میں سستی، سگریٹ و نشے میں ڈوب کر شیطانی طرز عمل کا شکار ہو گئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت و مشقت صرف عبادت تک محدود نہیں تھی۔ جب صحابہ کرامؓ پیٹ پر ایک پتھر باندھتے تھے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شکمِ مبارک پر دو پتھر بندھے ہوتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے وعدہ کیا تو تین دن تک اس شخص کا مقامِ مقررہ پر انتظار فرماتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوات میں شریک ہوتے تھے۔

میدان جنگ میں اُس مقام پر کھڑے ہوکر جہاد فرماتے جہاں جان کو سب سے زیادہ خطرات ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ میں سے سب سے بہادر اُس شخص کو سمجھا جاتا تھا جو میدانِ جنگ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب ہوتا تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اج کے نوجوانوں میں بہادری ایفائے عہد صبر برداشت کی کمی نیند بھوک کی تاب نہ لانا، کسلمندی، بسیار خوری نے ان کو نہ صرف ایمانی طور پر بلکہ جسمانی طور پر بھی کمزور کر کے ہوائے نفس کا شکار بنا دیا ہے۔ نیز اس سوچ نے بھی نوجوانوں کو عمل سے دور کرنے میں کسر نہیں چھوڑی کہ نبی اکرم تو باعث تخلیق

کائنات، سردارالانبیاء، اللہ کے حبیب ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہر عمل آسان تھا، لیکن ہم تو عام لوگ ہیں، ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی پیروی کہاں تک ہوسکتی ہے!

آپ تو سرور عالم ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو پیغام لے کر آئے وہ ایک جانب وحدتِ انسانی کی حقیقی بنیادیں فراہم کرتا ہے اور دوسری جانب اُمتِ مسلمہ کوتشکیل دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اُمتِ مسلمہ کے باہمی تعلق کی نوعیت واضح کرتے ہوئے سورۃ الحجرات میں فرمایا: مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو۔

حضرت جریر بن عبداللہؓ کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے تین باتوں پر بیعت لی تھی۔ ایک یہ کہ نماز قائم کروں گا۔ دوسری یہ کہ زکوٰۃ دیتا رہوں گا۔ تیسری یہ کہ مسلمان کا خیرخواہ رہوں گا۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے جنگ کرنا کفر ہے۔

حضرت ابوسعید خدریؓ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اس پر ظلم نہیں کرتا، اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا، اس کی تذلیل نہیں کرتا۔ ایک آدمی کے لیے یہی شر بہت ہے کہ وہ اپنے بھائی کی تحقیر کرے۔

حضرت سہیل بن ساعدی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ: گروہِ اہلِ ایمان کے ساتھ ایک مومن کا تعلق ویسا ہی ہے جیسا سر کے ساتھ جسم کا تعلق ہوتا ہے۔ وہ اہلِ ایمان کی ہر تکلیف کو اس طرح محسوس کرتا ہے جس طرح سرجسم کے ہر حصے کا درد محسوس کرتا ہے۔

حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مومن دوسرے مومن کے لیے اس دیوار کی طرح ہے جس کا ہر حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر بن عاصؓ نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے:مومن وہ ہے جس کی زبان اور جس کے ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔

غور کیا جائے تو یہی وہ تعلیمات ہیں جن کی بنیاد پرآپس میں حقیقی محبت اور حقیقی اخوت وجود میں آسکتی ہے اور یہی وہ نور ہے جو نوجوان نسل کوصالحت عطا کرتا ہے۔