درجہ حرارت اور دباؤ بڑھ رہا ہے

میں عمران خاں سے دوبار ہی ملا ہوں، پہلی بار وہ شوکت خانم کینسر اسپتال کے لیے فنڈ جمع کرنے کی مہم پر تھےاور اسٹیٹ لائف انشورنس میں آئے تھے۔ وہ ورلڈ کپ کی جیت کا تمغہ سینے پر سجائے تھے اور انھیں قومی ہیرو کا درجہ حاصل تھادوسری بار کراچی پریس کلب میں وہ میٹ دی پریس سے خطاب کرنے آئے تھے، اور اقتدار سے گلے ملنے کے لیے تیار تھے، وہ وزیر اعظم پاکستان کا عہدہ سنبھالنے والے تھے۔ ان سے ہاتھ ملانا ایک کھلاڑی سے ہاتھ ملانا جیسا ہے، جو بے دلی سے اپنے مداحوں سے ہاتھ ملارہا ہوتا ہے۔ عمران خان ایک فائٹر ہے، لڑائی لڑنے میں اسے مزہ آتا ہے۔ چاہے اس لڑائی میں خود کا بھی برا حال ہوجائے۔

نئے تنازعات بڑھتے جارہے ہیں، نومبر سے پہلے اکتوبر میدان جنگ میں بدل چکا ہے۔ 15 اکتوبر کو کیا ہوگا؟ کیا واقعی عمران خان فائنل کال دیں گے، اسلام آباد میں گبھراہٹ اور اداروں کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے۔ اسلام آباد میں سب کچھ ریڈ زون نہیں ہے، وہاں عام لوگ بھی رہتے ہیں، اگر احتجاج میں شدت آگئی تو کیا ہوگا؟ عوام کی جان اور مال کیسے محفوظ رہیں گے۔ نئے انتخابات، سائفر، چیف سے عمران خان کی ملاقات، وارنٹ گرفتاری سے بڑھ کر، اب تو عمران خان اپنی جان کے خطرے کی بات بھی کررہے ہیں، انھوں نے بھی اپنے نہ ہونے پر ایک ٹیپ کی بات کی ہے، جس میں انھوں نے سب کچھ ریکارڈ کرادیا ہے۔ ایسی ہی ایک ٹیپ بے نظیر بھٹو نے بھی ریکارڈ کرائی تھی۔ پھر کیا ہوا، اس ٹیپ پر کوئی کاروائی ہوئی، جن پر الزام لگایا گیا تھا، ان سے پوچھ گچھ کی گئی۔ سب کچھ دھرا کا دھرا رہ گیا۔

راولپنڈی میں دو وزیر اعظم قتل ہوئے، پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا قتل راولپنڈی ہی میں ہوا تھا، یہی اکتوبر کا مہینہ تھا، 16 اکتوبر 1951 کے بعد سے آج تک اس بارے میں کیا ہوا، وہ جہاز جس میں تحقیقات کی دستاویزات اور ثبوت تھے، تحقیقات کرنے والوں سمیت تباہ ہوگیا، پھر بے نظیر بھٹو کے قتل کی کونسی تحقیقات ہوئیں۔ سب کچھ ماضی کی نذر ہوگیا۔ تو اب خدا نخواستہ پھر کوئی سانحہ ہوا تو کیا ہوگا؟ کوئی اس پر نہیں سوچتا، سب اقتدار کے لیے مرے جارہے ہیں، کس قیمت پر، عوام کی تباہی، ملک کی تباہی، معیشت کی تباہی، معاشرہ کی تباہی۔ سیلاب نے جو تباہی مچائی ہوئی ہے، عوام جس طرح برباد اور تباہ حال ہیں، اس بارے میں کون سوچ رہا ہے، کون اس کے لیے کچھ کر رہا ہے، حکومت کے وہی اللے تللے ہیں، کوئی دوسری شادی کی رنگینیوں میں مگن ہے، کروڑوں روپے کے اخراجات، وہی عیاشیاں، وہی شاہ خرچیاں، اس حمام میں سب ننگے ہیں۔

چھ ماہ میں پچاس سے زائد جلسے ہوگئے ہیں، جلسے ایسے ہی تو نہیں ہوجاتے، کروڑوں روپے کے اخراجات ہوتے ہیں، کہاں سے آرہے ہیں، یہ پیسے، کون سرمایہ کاری کررہا ہے، مسلسل مقتدر حلقوں کو باور کر ایا جارہا ہے، ہمیں لاؤ، ہم پر بھروسہ کرو، ہم ہی حکومت کے اہل ہیں، عوام ہمارے ساتھ ہیں۔ ہماری شرائط پر انتخابات کراؤ ۔ ورنہ صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہو گا۔ نئے آرمی چیف کو بھی ابھی نہ لگایا جائے۔ انتخابات کے بعد نئی حکومت بننے تک یہ اہم تعیناتی ملتوی کر دی جائے۔ کیوں کردی جائے، اس کا کوئی جواب نہیں ہے، گو زبان سے بار بار کہا جارہا ہے کہ “میں توسیع کا خواہش مند نہیں” وقت مقررہ پر چلا جاؤں گا۔ لیکن نومبر سے پہلے یہ گھمسان کا رن پڑ رہا ہے۔ اس سے لگ رہا ہے، جانے والے اتنی آسانی سے نہیں جائیں گے۔ پہلے بھی راحیل شریف کے جانے سے پہلے انھیں بہت سے یقین دہانی کرائی گئی تھی، ان کی اچھی ملازمت کا انتظام کیا گیا تھا، ان کے بہت سارے تحفظات کا بندوبست کیا گیا تھا۔ اب بھی کچھ ایسا ہی انتطام ہوگا، یہاں سے نہیں ہوگا تو کہیں اور سے ہوگا۔

ایک کھلاڑی عوامی ردعمل کو دیکھ کر “پرجوش” ہوجاتا ہے۔ اسے تماشائیوں کی داد جیت کے لیے سب کچھ لگا دینے پر ابھارتی ہے۔ اس لیے کپتان بھی اب فائنل کھیلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ فائنل کی نوبت نہیں آئے گی، تحریک انصاف کو اس سے پہلے ایوان میں جانا ہوگا۔ بہت سے لیڈر عوامی پذیرائی سے غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں، بھٹو اپنے جلسوں میں مخالفین کو للکارتے، عوام سے کہتے ،” لڑو گے” گھروں سے نکلو گے، قربانی دو گے۔ لیکن پھر کیا ہوا، لاکھوں کے جلسے کرنے والے لیڈر کو پھانسی دے دی گئی۔ نہ خون کی ندیاں بہتی نظر آئیں، نہ پہاڑ روئے، عمران خان کہتے ہیں کہ “وہ جھوٹ بولنا نہیں چاہتے اور سچ وہ بتا نہیں سکتے۔” سچ کیا ہے، کیا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات، “بیک ڈور ڈپلومیسی” گاجر اور اسٹک کا کھیل نہیں ہورہا ہے،”عوامی آگاہی مہم” سے دباؤ بڑھایا جارہا ہے۔ تحریک انصاف کی صرف ایک ڈیمانڈ ہے کہ عام انتخابات کا اعلان کیا جائے اور پھر وہ تمام سیاسی پارٹیوں کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کو تیار ہیں۔ کیونکہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ اس سے زیادہ ساز گار موقع کبھی نہیں آئے گا، عمران خان کو یقین ہے کہ اگر ابھی انتخابات کرائے گئے تو وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔ اس لیے وہ اس موقع کو گنوانا نہیں چاہتے۔ لیکن بڑے بڑے بہادر اور انقلابی ہونے کا دعویٰ کرنے والے بھی اپنے آخری وقت میں، چی گویرا کی طرح گھگیاتے نظر آتے ہیں، اور اپنی زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں ،”پلیز گولی مت مارنا۔ میں چے گویرا ہوں۔ زندہ رہنے کی صورت میں زیادہ مفید ثابت ہوں گا”۔

حصہ
mm
عطا محمد تبسم سینئر صحافی، کالم نگار ہیں،وہ خرم بدر کے قلمی نام سے بھی معروف ہیں اور ان کئی کتابیں، قاضی حسین احمد انقلابی قیادت، محبتوں کا سفر رپوژ تاژ کاروان دعوت و محبت،سید مودودی کی سیاسی زندگی، پروفیسر غفور احمد،محبتوں کا سفیر سراج الحق عوام میں پذیرائی حاصل کرچکی ہیں، مارکیٹنگ کے موضوع پر ان کی تین کتابیں فروخت کا فن، مارکیٹنگ کے گر، اور مارکیٹنگ کے 60 نکات اور 60 منٹ ان کے ان کے اصل نام سے شائع ہوچکی ہیں۔وہ ایک ٹی وی چینل کی ادارت کی ٹیم کا حصہ ہیں۔جنگ، جسارت، نوائے وقت ایکسپریس، جہاں پاکستان میں ان کے کالم اور مضامین شائع ہوتے ہیں۔ وہ ایک اچھے بلاگر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ بیمہ کار میگزین اور بیمہ کار ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔