رب نہیں روٹھتا!

راستے پر بیٹھے ایک بزرگ نے سامنے سے گزرنے والی عورت کی خوبصورتی کی تعریف کر دی جو اس عورت کے ساتھ چلنے والے شخص کو ناگوار گزری اور اس نے بزرگ پر ہاتھ اٹھا دیا اور آگے بڑھ گئے ابھی کچھ فاصلہ ہی طے کیا ہوگا کہ اس جوڑے کو حادثہ پیش آگیا، آس پاس موجود لوگ اس سارے ماجرے کا مشاہدہ کر رہے تھے ان میں سے کسی نے بزرگ سے جا کر واقع سے آگاہ کیا اور اس اس جوڑے کے ساتھ پیش آنے والاحادثہ بیان کرنے کے بعد استفسار کیا کہ آپ نے انہیں بد دعا دی تھی جس کی وجہ سے انہیں حادثے نے آلیا، بزرگ بولے، نہیں ایسا نہیں ہم دعا دینے والے لوگ ہیں ،شائد ماجرا کچھ یوں ہوا ہو کہ ہم نے اسکے محبوب کی تعریف کی تو اسے برا لگاجسکا اسنے ردعمل ظاہر کیا اب شائد ہ میں بھی کوئی محبوب رکھتا ہو اور ہمارے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک اسے ناگوار گزرا ہواور اس نے اسکا بدلہ لیا ہو ۔ یوں تو دنیا میں ایسی مثالیں عام ملتی ہیں اور معلوم نہیں ایسے معاملات پر کتنے فساد ہوتے اور کس حد تک ہوتے ہیں ۔ دوستی یاریاں ایسے ہی نبھائی جاتی ہیں بلکہ اگر کوئی دوست کسی جھگڑے سے لاتعلق ہوجائے تو اسکا سماجی نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔ جن کا خمیر محبت کے عرق سے گوندا گیا ہو بھلا وہ لاکھ چاہتے ہوئے بھی کہاں نفرت کرسکتے ہیں ، جب نفرت نہیں ہوگی تو نفی نہیں ہوگی اور بھلا کوئی کس طرح سے محبت کی خوشبو سے دور رہ سکے گا ۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو مقرب ہوتے ہیں جو جڑے ہوئے ہوتے ہیں مگر دیکھائی نہیں دیتے مگر جب دیکھائی دیتے ہیں تو دیکھنے کے قابل نہیں سمجھے جاتے ۔ تخلیق کار سے روٹھ جاءو یا پھر تخلیق سے بات تو ایک ہی ہوتی ہے ، سب ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اور جو اس تعلق کو توڑ لیتے ہیں وہ گھور اندھیرے میں پیش قدمی شروع کردیتے ہیں اور ان کا کوئی بھی قدم انہیں اندھیرے میں موجود اندھے کنویں میں ہمیشہ کیلئے لے جاتا ہے ۔

آج ہم ایک اصطلاح بہت سنتے ہیں جسے انگریزی زبان میںStandard Operating Procedure (SOP) کہا جاتا ہے یعنی کسی بھی کام کرنے کا ایک میعاری طریقہ کار بلکل اسی طرح سے ایک ایسا ہی واضح اور مدلل زندگی گزارنے کا طریقہ کار ہمارے لئے ترتیب دے کر اپنے پیارے محبوب ﷺ پر نازل فرمایا ۔ ہدایت کی روشنی حالے کی مانند ہے جس کے قطر کا اندازہ لگانا ہمارے بس کی بات نہیں ہے اور نا ہی ہم یہ دعوی کرسکتے ہیں کہ یہ دائرہ گول ہے یا چکور یا پھر کسی اور زاوئیے کا ہے ، یہ سب جاننے والا ہی جانتا ہے ۔ اس قطر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی وضاحت کے ساتھ طریقہ کاررہتی دنیا تک کیلئے دنیا میں موجود ہے اوراسکی تعلیمات کو سمجھانے کیلئے ایک معلم حضرت محمد مصطفے ﷺکے ذریعہ سے انسانیت تک پہنچایا اور آپ ﷺ کا ہر عمل اللہ کی رضا کیلئے رہاجو ہماری رہنمائی کا سبب بنا ، دنیا اس کتاب کو واضح طریقہ کار کو قران مجید فرقان حمید کے نام سے جانتی ہے ۔ یہاں یہ بات بھی واضح کرتے چلیں کے اس روشنی کے حالے سے باہر ایسا اندھیرا ہے کہ جس میں ہاتھ کو ہاتھ نا سجھائی دے ۔ روشنی کے حالے میں داخلے کی بس ایک ہی شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ بتائے گئے راستے پر،بتائے گئے عمل کیساتھ سفر جاری رکھا جائے ۔ اس پر عمل پیرا ہوکر ہم اس قطر میں داخل ہوسکتے ہیں اور رب کی ناراضگی سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ اس بات کی فکر تو سب کو رہتی ہے کہ جو آپ سے محبت کرنے والے ہیں یا تعلق دار ہیں ناراض نا ہوں جسکے لئے انکی پسند اور ناپسند کا خیال بھی رکھا جاتا ہے لیکن اللہ اور رحمت اللعالمین ﷺ کی ناراضگی سے ماورا ہوچکے ہیں۔

دنیاوی اعتبار سے یہ بات بہت عام ہے کہ اولاد کتنی ہی نافرمان کیوں نا ہوجائے لیکن اس سے ماں کبھی نہیں روٹھتی کسی نا کسی بہانے سے نافرمان اولاد کی خبر گیری کرتی ہی رہتی ہے ، یہ ایک ماں کی محبت کا نمونہ ہے جس نے اولاد کو پیدا کیا ہے، دوسری طرف وہ ہے جس نے رہتی دنیا تک کیلئے اس تخلیق کو اپنی تخلیقات میں اول درجے پر فائز کردیا ہے، امت محمدی ﷺ کو اپنی تمام امتوں پر فائز کردیا ہے اور جو یہ باور کراتا ہے کہ میں اپنے بندے سے ستر ماءوں سے زیادہ پیار کرتا ہوں ۔

خالق کائنات نے دنیا کی نعمتیں کسی پر مخصوص نہیں کیں ، تھوڑی سی تگ و دو کرنی پڑتی ہے ہر شے دنیا کے کسی بھی کونے میں دستیاب ہوجاتی ہے ، دستیابی کو یقینی بنایا ایک بات ان نعمتوں تک رسائی کے ذراءع سے بھی آگاہ کیا گیا ہے، جو جتنی محنت کرے گا وہ اتنی پر تعیش زندگی گزارنے کا اہل ہوسکتا ہے لیکن یہ کلیہ صرف دنیاوی زندگی کیلئے ہے ۔ اس کا تعلق دینوی زندگی سے نہیں جوڑا جاسکتا سوائے اسکے کہ دونوں میں محنت کولازمی قرار دیا گیا ہے ۔ ایک طرف محنت ہوتی بھاگ دوڑ ہوتی ہے کہ کس طرح سے اپنی زندگی کو پر تعیش بنایا جائے اور دنیا میں موجود ہر سہولت کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ کسی معمولی سی غلطی کو اگر نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھ جائیں تو یہ معمولی سی غلطی وقت کے ساتھ ساتھ بہت بڑے حادثے کا سبب بن جاتی ہے ۔ ہم اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ نقصان کے پیچھے بہت سارے محرکات پوشیدہ ہوتے ہیں جن میں غلط فہمی سے لیکر آگہی کی غلط ترویج تک شامل ہیں ۔ ہم بطور انسان اپنی طاقت کے دور میں کمزوری سے ملاقات کو اپنی شان میں گستاخی سمجھتے ہیں ۔ اعتدال نہیں ہوگا تو پھونچال ہوگا جو کچھ بھی خراب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ ہم دھیان دیں تو معلوم ہوجاتا ہے کہ ہم جس مشکل میں پھنس گئے ہیں اس کا جال بھی ہم نے خود ہی بنا تھا ۔ بہت مشہور ہے کہ دھوکا اپنے مرکز سے بہت پیار کرتا ہے یعنی جو دھوکا دے رہا ہوتا ہے اسے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ آنے والے کسی دن میں یہ دھوکا واپس پلٹ کر اسکے پاس آئے گا ۔

گزشتہ دنوں ہونے والی بارشیں اس حد تک ہوگئیں کہ تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑگیا ۔ پاکستان کے پاس کتنے وسائل موجود ہیں اس بات سے ہم پاکستانی تو کیا ساری دنیا ہی واقف ہے ۔ سیلاب نے سب کچھ تباہ و برباد کر کے رکھ دیا اور سیلاب کی بے رحمی نے یہ بھی نہیں دیکھا کے کس کا گھر کچا ہے ، کس کے گھر میں معذور ہے اور کون سی چھت ایسی ہے جس کے نیچے رہنے والوں کے پاس سوائے اس کے کچھ بھی نہیں ہے ۔ بظاہر ہم کسی کو اس سیلاب کا کیا کسی بھی قدرتی آفت کا ذمہ دارنہیں ٹہراسکتے، کیونکہ جو کچھ بھی اس ملک میں ہو رہا ہے من حیث القوم ہم سب اسکے ذمہ دار ہیں ۔ آپ نے یہ بھی کہا ہوگا یا پھر کہتے سنا ہوگا کہ آج ہماری قوم میں وہ ساری برائیاں عام ہوچکی ہیں کہ جن کی بنیاد پر ایک ایک قوم کو نیست و نابود کیا گیا۔

سماجی ابلاغ ایک ایسا ثبوت بن گیا ہے کہ جہاں سب کچھ دیکھا اور سنا جاسکتا ہے جس کو کوئی غلط بھی ثابت نہیں کر سکتا ۔ اس سیلاب کو سمجھنے والوں نے اپنے گناہوں کی بدولت قدرت کا عذاب سمجھا ، اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھا اور سنا گیا کہ اب بھی اگر نہیں سدھرے تو پھر کہیں پتھروں کی بارش ہ میں نیست و نابود کرنے کیلئے نا آجائے ۔ ان دونوں باتوں کا اگر من حیث القوم ہمارے اعمال پرفرق پڑجائے تو بہت اچھی بات ہے اگر ہم بطور قوم توبہ کرلیں اور سیدھے راستے پر جس پر چل کر روشنی کے حالے میں داخل ہوا جاسکتا ہے چلنے لگے تو بہت اچھی بات ہے ۔ لیکن یہ جان لیجئے رب نہیں روٹھتا بس ہم ہی ہیں جو رب کی طرف جانے والے راستے سے رخ موڑ لیتے ہیں تو ہم خود ہی دلدل یا کھائی کا انتخاب کرتے ہیں پھر ہم یہ کہنے کا جواز نہیں رکھتے کہ رب روٹھ گیا ہے ۔ صراط مستقیم پر لوٹ آئیے اور ہدایت کے حالے میں داخل ہوجائیے ۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔