فریضۂ جہاد

جہاد کے معنی کسی مقصد کو حاصل کرنے کیلئے اپنی انتہائی کوشش کرنا ہے۔ جب یہ ساری جدوجہد اللہ کی رضا کے لیے ہو تو جہاد فی سبیل اللہ کہلاتی ہے۔ یہ ایک مسلسل عمل کا نام ہے، اسلام کے بعض مفاد پرست دشمنوں نے یہ الزام لگایا ہے کہ لا اکراہ فی الدین اور فریضہ جہاد دو مختلف اور متضاد باتیں ہیں۔ اور بدقسمتی سے بعض ناعاقبت اندیش لوگوں نے بظاہر اسلام کی مدافعت کرتے ہوئے مسلمانوں کے ذہنوں سے جذبۂ جہاد کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ ایسے لوگ جہاد کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش میں یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام کے قیام میں جہاد کے فریضے نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایسے لوگ بڑی چالاکی سے نہایت نرم انداز میں مسلمانوں کے دل و دماغ میں یہ بات بٹھانا چاہتے ہیں کہ آج جہاد کی ضرورت نہیں رہی۔ بظاہر یہ لوگ اسلام کے دفاع میں بات کرتے نظر آتے ہیں۔

آج جہاد کو دہشت گردی کا نام دے دیا گیا ہے اسلام دشمن اور یہ بظاہر اسلام دوست ایک ہی میدان میں کام کرتے نظر آتے ہیں یہ دونوں اسلام کے خلاف برسرپیکار ہیں اوراس شعور کو ختم کر دینا چاہتے ہیں جو ایک مسلمان کے دل و دماغ میں نظام جہاد کی افادیت سے پیدا ہوتا ہے کیوں کہ یہ لوگ اسلام کے شعور جہاد سے خوف زدہ ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اگر مسلمانوں میں یہ شعور پیدا ہوگیا تو کبھی بھی یہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس لیے وہ اس شعور کو ختم کرنے کے لیے ہر طرح کی رذیل حرکتیں کرتے ہیں، ان لوگوں نے دل مسلم سے جذبہ جہاد کو یا تو ختم کر دیا ہے یا الجھا دیا ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسلم ممالک اور غیر مسلم ممالک کی اصل جنگ معاشی و اقتصادی جنگ ہے، اس لیے اس دور میں جہاد فی سبیل اللہ کی بات بلا جواز ہے۔

اللہ تعالی نے جہاد کا حکم اس وقت دیا تھا جب مسلمانوں پر ظلم توڑے جا رہے تھے تاکہ مسلمانوں کی جان، مال اور نظریہ حیات کی حفاظت کی جاسکے اسلام نے نظریاتی تشدد اور اس کی وجہ سے ہونے والے جسمانی تشدد کو قتل سے زیادہ شدید تر قرار دیا ہے۔ جب انسان اپنے جان و مال کی حفاظت کے لیے ہتھیار اٹھا سکتا ہے تو نظریات کی قدروقیمت تو انسانی زندگی سے کہیں زیادہ ہے خاص کر ایک مسلمان کے لیے اور ہونا بھی چاہیے لہٰذا اگر مسلمان ایک سچا مسلمان ہے تو آج بھی جہاد فی سبیل اللہ اسی طرح اس پر فرض ہونا چاہیے جیسے پہلے فرض تھا تاکہ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم بند ہو سکیں۔

جہاد کا ایک دوسرا مقصد یہ ہے کہ نظریاتی آزادی کے بعد اس کی دعوت و تبلیغ کی بھی آزادی کے پورے پورے مواقع حاصل ہونے چاہئیں اسلام زندگی کی نشوو نما کے لیے ایک بہترین نظام تجویز کرتا ہے وہ اس پیغام کو پوری دنیا تک پہنچانا چاہتا ہے تاکہ لوگ اس کو سنیں اور سمجھیںاس کے بعد وہ آزاد ہیں کہ وہ اس کو قبول کریں یا رد کر دیں وہ اس معاملے میں کسی جبر کا قائل نہیں ہے لیکن اسے مکمل نظریاتی آزادی چاہیے وہ تمام رکاوٹیں دور ہونی چاہئیں جو اس پیغام کو عوام الناس تک پہنچنے سے روکتی ہیں اس معاملے میں سب سے بڑی رکاوٹ اس زمین پر قائم طاغوتی نظام ہے اول تو یہ طاغوتی نظام عوام الناس تک یہ پیغام پہنچنے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے اگر اس میں ناکامی ہو تو مان لینے اور اپنانے والوں پر تشدد شروع کر دیتا ہے، لہٰذا اسلام نے جب بھی جہاد کیا ایسے باطل اور طاغوتی نظام کا قلع قمع کرنے کے لئے کیا اور یہی مقصد اور ہدف آج بھی ہے لہٰذا آج بھی مسلمانوں پر جہاد فی سبیل اللہ پر فرض ہے۔

اسلامی نظام زندگی کے قیام کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت بھی ضروری ہے یہ نظام اس دنیا سے ہر طرح کی انسانی غلامی کا خاتمہ کرتا ہے اس نظام میں سب انسانوں کا رب ایک ہے وہ ایک ہی قانون وضع کرتا ہے کسی فرد کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہی سے مشروط ہے اس لیے قانون سازی کا حق بھی صرف اور صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے اسلامی نظام حیات ایک ایسا اخلاقی نظام پیش کرتا ہے جس میں ہرشخص کو مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے ان کو بھی جو اسلامی عقیدے کو سرے سے قبول ہی نہیں کرتے۔ اس نظام میں ہر فرد کی جان و مال اور عزت محفوظ ہوتی ہے چاہے وہ مسلمان ہو یا نہ ہو۔ کسی فرد کو اسلامی عقائد کو ماننے پرمجبور نہیں کیا جاتا تو اسلام نے جہاد اس لیے فرض کیا ہے کہ وہ ایک ایسا نظام بنائے جہاں ہر فرد کو مکمل آزادی کے ساتھ ساتھ اس کی جان و مال اور عزت محفوظ ہو یہ اسلام کا حق ہے کہ وہ بذریعہ جہاد تمام فاسد اور باطل نظام کا خاتمہ کرے اور انسان کو انسان کی غلامی سے آزاد کرے۔

جب اسلام یہ نصب العین لے کر چلتا ہے تو تمام باطل قوتیں اس کے خلاف صف آراء ہو جاتی ہیں اس وقت اسلام ان باطل قوتوں کے خلاف اعلان جہاد کرتا ہے تاکہ لوگوں کو اسلامی نظام کے زیر سایہ عقائد میں شخصی آزادی عطا کرے اور ان پر صرف اسلامی اخلاقیات اور مملکت کی اقتصادی پالیسی کی پابندی لازم ہو باقی ہر طرح کے قلبی رحجانات اور مذہبی عقائد کے لیے وہ آزاد ہیں مگر اسلامی نظام زندگی ان پر قائم ہواور ان کی حفاظت کرے ان کی آزادی اسلام کے سائے میں محفوظ ہو۔

آج بھی جہاد اسی طرح فرض ہے جیسے کہ پہلے تھا تاکہ مسلمان اسلامی نظام زندگی کا قائم کریں اور اس کی حفاظت کریں۔ غرض مسلمان نے تلوار اس لیے نہیں اٹھائی کہ لوگوں کو زبردستی دین قبول کرنے کے لئے مجبور کیا جائے بلکہ جہاد اس لیے فرض ہے کہ اس کرہ زمین پر امن و امان کی زندگی کا نظام قائم کیا جائے۔

یہ بات درست ہے کہ اسلام میں جبر نہیں لیکن اسلام تمام ادیان سے بالاتر ہے اس کے تصورات تمام تصورات سے بلند ہیں اسلامی نظام تمام نظاموں میں بلند تر ہے ہر مسلمان کو اس پر پورا کامل یقین ہونا چاہیے اس کو مکمل سمجھنا چاہیے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی تاریخ پڑھیں مسلمانوں کو ایسا مؤقف ہرگز بھی نہیں اختیار کرنا چاہیے کہ جیسے وہ ایک ملزم ہوں اور اپنا دفاع کر رہے ہوں ہر مسلمان کو ایک پر اعتماد اور پرعزم شخص کا مؤقف اختیار کرنا چاہیے۔ اس کو اہل اسلام کے ان لوگوں سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے جو بظاہر دین کا دفاع کر رہے ہو ںمگر ان کا مقصد دل مسلم سے جذبہ جہاد کو نکال باہر کرنا ہو جہاد تمام طاغوتی طاقتوں کو کچل دینے کا نام ہے اسی میں انسانیت کی بھلائی ہے۔