ایک تھی ایم کیو ایم

میں 1980یا اس کے اوائل میں پیدا ہونے والی کراچی کی اس نسل سے تعلق رکھتا ہوں، جو آج یہ کہتی ہے کہ ہماری آغاز جوانی سے اختتام جوانی تک کا سفر دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ ،بھتہ خوری، محاصروں، چھاپوں اور دہشت کے سائے میں ہی بیت گیا۔ ہم جوان ہورہے تھے تو اس وقت کراچی کی سیاست بدل رہی تھی اور آج جب ہم ادھیڑ عمر ی میں داخل ہورہے ہیں تو کراچی کی سیاست ایک مرتبہ پھر بدل رہی ہے۔ ہم بلاتامل یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری نسل نے کراچی کا اصل رنگ کبھی دیکھا ہی نہیں۔ ہمیں نہیں علم کہ کراچی روشنیوں کا شہر کب تھا اور کب اس کی راتیں جاگتی تھیں۔ ہمیں تو بس اتنا علم ہے کہ اسکول جانا ہو یا آفس ہمیں پہلے یہ صدا سننی پڑتی تھی کہ حالات خراب ہیں اور پھر گھر والوں کی یہ نصیحت کہ بیٹا دیکھ بھال کے جانا۔

80کے بعدکا کراچی ایم کیو ایم کا کراچی تھا ۔”وہ آیا ، اس نے دیکھا اور فتح کرلیا ” یہ مقولہ شاید ایم کیو ایم کے لیے ہی بنا تھا۔ ہمیشہ سے جماعت اسلامی اور جمعیت علماء پاکستان کو اپنا اعتماد بخشنے والے کراچی کے پڑھے لکھے لوگ رئیس امروہوی اور اختر رضوی جیسے اردو بولنے مہاجر دانشوروں کی سوچ کے حامل ہوگئے اور ان پر ایم کیو ایم اور قومیت کا بھوت سوار ہوگیا۔ ایم کیو ایم ان کے لیے کوئی سیاسی جماعت نہیں تھی۔ وہ اس کو اپنی شناخت سمجھتے تھے۔ کیا ہی حیرت کی بات ہے کہ ایم کیو ایم نے احساس محرومی اورعدم تحفظ کا جن جگا کر کراچی کے اردو بولنے والوں کو اپنا دیوانہ بنالیا۔ آپ 40سال پہلے کا کراچی دیکھ لیں۔ لیاقت آباد، کورنگی، لانڈھی، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، نیو کراچی، نارتھ کراچی، اورنگی ٹاؤن، پی آئی بی کالونی سمیت تمام اردو بولنے والوں کی بستیاں دیکھ لیں آپ کو ہر دوسرا گھر ایک ایسے شخص کا نظر آتا تھا جو سرکاری ملازم تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ نوکریاں بھی ملتی تھیں اور پاکستان میں آپ کی ایک مثبت شناخت بھی تھی۔ پھر آگئی ایم کیو ایم اور اس کا احساس محرومی کا نعرہ جس کے گرد اردو بولنے والے پروانوں کی طرح ناچنے لگے۔

یہاں سے اس سفر کا آغاز ہوتا ہے جس نے کراچی کو آج اس مقام پر پہنچادیا ہے۔ اس ایم کیو ایم کو کراچی والوں نے اپنا سب کچھ دے دیا تھا۔ کوئی اس جماعت پر لاکھ الزامات لگاتا وہ اس کے دفاع کے لیے ہمیشہ آگے آتے۔ وہ قربانی کی کھالوں کو ایم کیو ایم کا حق سمجھتے۔ فطرے کی پرچیوں پر پیسے کی ادائیگی ان کے لیے فرض تھا۔ ٹی وی فروخت کرواور اسلحہ خریدو کا نعرہ بھی ان کے لیے قابل قبول تھا۔ اس ایم کیو ا یم کے لیے ماؤں بہنوں نے اپنے زیوارت تک فروخت کردیئے۔ قومیت کا جادو سر چڑھ کے بول رہا تھا اور عشق تو ہوتا بھی وہی ہے کہ جس میں محبوب کی کوئی برائی آپ کو برائی لگتی ہی نہیں ہے۔ شاید بہت سے کانوں کو یہ بات ناگوار گزرے لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب پولیس ایم کیو ایم کے کسی کارکن کو دہشت گرد کہہ کر مقابلے میں مارتی تھی یہ اردو بولنے والے اس کارکن کو اپنا شہید سمجھتے تھے چاہے اس کے خلاف ناقابل تردید ثبوت ہی کیوں موجود نہ ہوں۔ شاید آپ کو میری یہ بات بھی بری لگے کہ آپ کی نظروں میں فاروق دادا، ریحان کانا، ارشد کے ٹو وغیر کے نام ایک گالی ہوں لیکن یہ اس نسل کے اردو بولنے والوں کے ہیرو تھے۔ آپ ان کے جنازے دیکھ لیں، خوف کے سائے میں بھی لوگ ان کو آخری آرام گاہ کی طرف چھوڑنے جاتے تھے۔ آپ جتنا ایم کیو ایم پر دہشت گردی، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ کا الزام لگاتے کراچی کے لوگ اتنا ہی زیادہ ان سے محبت کرنا شروع کردیتے۔ آپ اس حقیقت کو سمجھ ہی نہیں رہے تھے کہ ایم کیو ایم کی بنیاد رکھنے والوں نے خوف کی بنیاد کراچی والوں کے ذہنوں میں رکھ کر ان کی محبت خرید لی ہے۔

اردو بولنے والوں کی عقل پر عشق کا ایسا پردہ پڑا تھا کہ خدا کے بندوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ کوٹہ سسٹم کے خلاف نعرے لگانے والی اس تنظیم کے بننے سے پہلے انہیں کتنی سرکاری نوکریاں ملتی تھیں اور اب کتنی ملتی ہیں۔ پاک فوج میں ان کے کتنے افسران و جوان ہوتے تھے اور اب کتنے ہوتے ہیں۔ آپ لاہور، پشاور، اسلام آباد جاتے تھے تو عزت ملتی تھی یہ پھر کہتے تھے کہ لو ایم کیو ایم کے دہشت گرد آگئے۔ اس ایم کیو ایم کے لیے سب کچھ تو گنوادیا تھا لیکن آنکھیں پھر بھی نہیں کھل رہی تھیں اور اس کی ایک وجہ بھی تھی اور وہ یہ کہ ایم کیو ایم اچھی بری جیسی بھی تھی اس کے روٹس عوام کے اندرتھے۔ اس کا ہر رہنما اپنے ووٹر کو جواب دہ تھا۔ ان کے کالر کھڑے نہیں ہوئے تھے۔ لوگ ان کو اپنوں میں سے ہی سمجھتے تھے اور بے شک چاہے ان اپنوں نے ان کو مارکر چھاؤں میں بھی نہ پھینکا ہو۔ وہ ایم کیو ایم فیصل سبزواری کی نہیں اسلم سبزواری کی ایم کیو ایم تھی، جس کی لاش پر تشدد کے اتنے نشانات تھے کہ آپ گن بھی نہیں سکتے۔ وہ خواجہ اظہار الحسن کی نہیں عظیم احمد طارق کی ایم کیو ایم تھی، جس کی ذہانت جائیدادیں بنانے کے لیے نہیں درحقیقت اردو بولنے والوں کی بھلائی کے لیے کام آتی تھی۔ یہ وہ ایم کیو ایم تھی کہ اگر اس کا کارکن جیل کی چکی میں ہوتا تو اس کا رہنما بھی اسی چکی میں پس رہا ہوتا تھا ۔

کراچی والوں نے جماعت اسلامی اور جمعیت علماء پاکستان کی شرافت سے نظریں چراکر ایم کیوایم کو آنکھوں میں بسایا تھا لیکن صد افسوس اس محبت کا جواب محبت سے نہیں دیا جاسکا۔ 2002ءکے بعد ایم کیو ایم کی حقیقت کراچی والوں کے سامنے کھل کر سامنے آنا شروع ہوگئی تھی۔ ان کو محسوس ہونے لگا تھا کہ یہ محبت نہیں ہے بلکہ وہ یرغمال بن گئے ہیں۔ محبت سے اپنا سب کچھ ایم کیو ایم پر نچھاور کرنے والوں کی آنکھیں کھلناشروع ہوگئی تھیں۔ پارٹی کا کارکن جو پہلے بھائی کہلاتا تھا اور لوگ اس کو بھائی سمجھتے بھی تھے وہ اب اس کی شکل سے ہی خوفزدہ ہونے لگے تھے۔ ان کو محسوس ہونے لگاتھا کہ وہ وقت اب قریب آگیا ہے کہ جب یہ ”بھائی” ان کے گھروں میں آیا کریںگے اور ان کی ماہانہ آمدنی پوچھ کر اپنا حصہ لے کر چلے جایا کریںگے۔ ایم کیو ایم کو ایم کیو ایم نے ہی ختم کردیا تھا۔ 2010ء کے بعد اس کی آخری رسومات کا آغاز ہوگیا تھا۔ کراچی والوں کا عشق دم توڑ رہا تھا اور اس عشق کی جو آخری کڑی تھی اس کا لندن سے رابطہ ختم ہوگیا۔ جس تحریک یا جماعت کا نعرہ ہی یہ ہو کہ ”ہم کو منزل نہیں رہنما چاہیے ”تو وہ بغیر رہنما چل بھی کیسے سکتی تھی۔ کاش کہ اس تحریک نے واقعی منزل پر نظر رکھی ہوتی تو آج کارکنوں کے جنازوں پر اس کے رہنماؤں کو چپلیں نہیں ماری جاتیں ۔

کراچی بدل رہا ہے۔ شاید یہ ایک مرتبہ پھر روشنیوں کا شہر بن جائے۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے سالوں میں شہر قائد کی رہنمائی عمران خان، حافظ نعیم الرحمن، بلاول بھٹو ودیگر کررہے ہوں اور کراچی والے ان کی محبت کا دم بھررہے ہوں ۔”جیئے مہاجر کا نعرہ ” ایک ماضی بن جائے۔ یہ ”ایب نارمل” شہر ”نارمل” ہوجائے اورمیرا 5سال کا بیٹا بڑا ہو کرآزادانہ طور پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے رہا ہواور پھر میں اس کو کہوں کہ بیٹا آؤ میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں اور اس کہانی کا آغاز کچھ ایسے ہو کہ سنو بیٹا! ”ایک تھی ایم کیو ایم ”۔