خواہشوں کی اسیر دنیا

مشکلات سے نبردآزما ہونے والے ہی زندگی کے تلخ تجربات کے ذریعے آنیوالے مصائب کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، انسان کو روئے زمین پر اس لئے ساری مخلوق سے افضل قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علم، فکر، دانش اور فہم وفراست سے آنیوالی مشکلات کی پیش بندی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اسکی سوچ ہی اسے تمام مخلوقات سے ممتاز بناتی ہے، ان سب کے باوجود انسان کے اندر بے شمار خامیاں بھی ہیں جن کا وہ اکثر مظاہرہ کرتا رہتا ہے، انسان کی خواہش ہی اسے بہت کچھ کرنے پر اکساتی رہتی ہے اور اس خواہش کی تکمیل کی خاطر انسان ہر طرح کا اچھا اور برا کام کرنے پر تیار ہوتا ہے۔

انسان کی فطرت میں جستجو ضرور ہے اور اپنے کل کو کچھ بہتر بنانے کے لئے اسکی سوچ کا کینوس پھیلتا جاتاہے اور یہ ساری سرگرمیاں اسکی خواہشوں کے طلاطم کی اسیر ہوکر اچھے اور برے کے فرق کو بھی خاطر میں نہیں لاتیں، ان حالات میں اب تیز رفتاری سے ترقی کرنے والی دنیا میں قدرتی آفات بلاسبب نہیں آتیں، سائنس دانوں نے انتہائی تیز رفتار ترقی کے لئے جاری انسانی سرگرمیوں کو تمام ناگہانی آفات کی وجہ قرار دیا ہے جن میں موسمیاتی تبدیلی کو بھی انسان کی ترقی کے نام پر لالچ کی کارستانی کہاگیا ہے، موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں ماہرین کی اب تک ہونے والی تحقیق کے مطابق انسانی سرگرمیوں نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافہ کیا ہے، جو درجہ حرارت کو بڑھاتا ہے۔ موسم میں شدت اور قطبی برف کا پگھلنا اس کے ممکنہ اثرات میں شامل ہیں۔ کسی ایک علاقے کی آب و ہوا اُس کے کئی سالوں کے موسم کا اوسط ہوتی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی اس اوسط میں تبدیلی کو کہتے ہیں۔ زمین اب بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے اور عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی ہمارے طرز زندگی کو بدل دے گی، جس سے پانی کی قلت پیدا ہو گی اور خوراک پیدا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ کچھ خطے خطرناک حد تک گرم ہو سکتے ہیں اور دیگر سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں رہیں گے۔

موسم میں شدت کی وجہ سے پیش آنے والے واقعات جیسے گرمی کی لہر، بارشیں اور طوفان بار بار آئیں گے اور ان کی شدت میں اضافہ ہو جائے گا، یہ لوگوں کی زندگیوں اور ذریعہ معاش کے لیے خطرہ ہو گی۔ غریب ممالک کے شہریوں کے پاس حالات کے مطابق ڈھلنے کا امکان کم ہوتا ہے اس لیے وہ سب سے زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔ قطبی برف اور گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ نشیبی ساحلی علاقوں کے ساتھ ساتھ سمندروں میں طغیانی کا خطرہ ہے۔ جب سائبیریا جیسی جگہوں پر منجمد زمین پگھلتی ہے، وہاں میتھین جو ایک گرین ہاؤس گیس ہے فضا میں خارج ہوتی ہے، جس سے موسمیاتی تبدیلی کی صورتحال مزید خراب ہوتی ہے۔ جنگل کی آگ کے لیے سازگار موسمی حالات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آب و ہوا میں ہمیشہ قدرتی تغیرات ہوتے رہے ہیں۔ لیکن انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے اب عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔

ماضی میں جب سے لوگوں نے تیل، گیس اور کوئلے کا استعمال شروع کیا ہے تب سے دنیا تقریباً 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہوئی ہے۔ یہ ایندھن بجلی کے کارخانوں، ٹرانسپورٹ اور گھروں کو گرم کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان فوسل فیولز کو جلانے سے گرین ہاؤس گیسیں خارج ہوتی ہیں جو سورج کی توانائی کو پھنساتی ہیں۔ فضا میں ایک گرین ہاؤس گیس جو کاربن ڈائی اکسائیڈ ہے اُس کی مقدار انیسویں صدی کے بعد سے تقریباً 50 فیصد اور گذشتہ دو دہائیوں میں اس میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کی ایک اور وجہ جنگلات کی کٹائی ہے۔ جب درختوں کو جلایا جاتا ہے یا انھیں کاٹا جاتا ہے تو عام طور پر ان میں کاربن کا ذخیرہ ہوتا ہے اُس کا اخراج ہوجاتا ہے۔ سائنسدانوں نے درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کے اضافے کو گلوبل وارمنگ کے لیے محفوظ حد مقرر کیا ہے۔ اگر درجہ حرارت زیادہ ہو جائے تو قدرتی ماحول میں نقصان دہ تبدیلیاں انسانوں کے طرز زندگی کو تبدیل کر سکتی ہیں۔ بہت سے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ایسا ہوگا اور صدی کے اختتام تک 3 ڈگری سینٹی گریڈ یا اس سے زیادہ کے اضافے کی پیش گوئی کی ہے۔ اس طرح پاکستان جس کا موسمیاتی تبدیلی میں کوئی حصہ بھی نہیں اب طوفانی بارشوں اور سیلاب کی شکل میں دوسروں کی لالچ کا خمیازہ بھگت رہا ہے اس بات کا اعتراف نہ صرف ماہرین بلکہ اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس میں برملاکیا گیا ہے، آفات کا آنا بھی انسان کی سرگرمیوں کا ردعمل ٹھہرایا گیا ہے، شاعر بھی تو یہی کہتا ہے،

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثے ایک دم نہیں ہوتے

پاکستان دنیا کی لالچ کا شکار ہوا ہے اس وقت سیلاب کی تباہیوں سے اربوں ڈالر کا انفراسٹرکچر ملیامیٹ ہوکر رہ گیا ہے،دنیا کو اس حوالے سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے خبردار کیا ہے کہ ان کی لالچ کے سبب موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں قدرتی آفات کا سلسلہ ان تک بھی پہنچ رہا ہے اس لئے اس کا سدباب ہونا چاہئے اور دنیا کو سر جوڑ کر اس مسئلے سے نبرد آزما ہونے کی تیاری کرنی چاہئے، پاکستان کے سیلاب متاثرین کی مدد سے اگرچہ تیز رفتار ترقی کرنے والے ممالک کی کوتاہیوں کا ازالہ تو نہیں ہوسکتا مگرکم ازکم احساس ہی اجاگر ہوجائے تو پھر سوچ کا دھارا تبدیل ہوسکتا ہے اس لئے اقوام متحدہ کے سربراہ کی وارننگ پر ہی سہی اپنے لئے خود گڑھا کھودنے سے باز آنے کی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔

اپنی بربادی کے سدباب کی تحریک ملنے پر ہی شائد خواہشوں کی اسیر دنیا کو پھر اچھے،برے کام کے فرق کا بھی احساس ہوجائے۔