شریعت اور فطرت

ہمیں اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات پیدا فرمایا۔ ہمارے اوپر اپنی ان گنت نعمتوں کی بارش برسائی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے قانون فطرت بنایا۔ نوع انسانی کی بڑھوتری کے لیے جوڑوں کا انتخاب کیا اور ہم پر اپنا خصوصی احسان یہ کیا کہ ہمارا انتخاب انبیاء کے سردار، وجہ کائنات ﷺ کی اُمت میں کیا اور ہمیں ایسی اُمت میں پیدا فرمایا جو سابقہ تمام اُمتوں سے برتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی شکل ہمیں راہ حیات دی اور نبی کریم ﷺکے ذریعے اس پر عمل کرنے کا طریقہ بتلایا۔

اللہ تعالیٰ کے عطاء کردہ اتنے احسانات کے باوجود ہم قانون فطرت کی مخالفت پر اتر آئے۔ اپنی جنسی خواہشات کو جائز طریقے سے پورا کرنے کے بجائے غیر فطری اور نا جائز طریقوں سے خواہشات کے تکمیل کی کوشش کرنے لگے حالانکہ شریعت مطہرہ نے انسان کی اور مسلمانوں کی جنسی خواہشات کو مد نظر رکھتے ہوئے نکاح کا حکم دیا۔ اگر ایک سے تشنگی حاصل نہیں ہوتی تو دوسرا نکاح کرو، تیسرا کرو پھر چوتھا کرو ۔ شریعت نے انسان کے جنسی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے چار نکاح کرنے کی اجازت دی۔ اس کے باوجود ہم پاکیزہ راستوں سے اپنی جنسی تشنگی بجھانے کے بجائے ان کاموں پر اتر آئے جو اللہ کے غیظ و غضب کو دعوت دیتے ہیں۔ ہم نے ہم جنسی کو اپنی خواہش کی تکمیل کا سبب بنایا وہ گناہ جس کی وجہ سے لوط علیہ السلام کی قوم کو سخت عذاب دیا گیا۔

ہم نے اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کی رکھوالی کے بجائے بر سرپیکار قانون الٰہی کی مخالفت پر اتر آئے۔

ہم مسلمان ہیں اور ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جو بے شمار قربانیوں کے بعد کلمہ کے نام پر حاصل کیا گیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اس ملک سے برائیوں کے سد باب کی کوشش کرتے، بدی کے خلاف قانون بناتے، احکام الٰہی کو پامال کرنے والوں کو کڑی سے کڑی سزائیں دیتے، نبی کریمﷺ کی تعلیمات کی مخالفت کرنے والے کو سخت سزائیں دے کر ان کو عبرت کا نشاں بنایا جاتا تاکہ اس پاک وطن کے پاکیزہ سر زمین پر برائی کی جڑیں کٹ کر رہ جائیں۔ لیکن اس کے بر عکس ہم نے اس اسلامی ملک میں کفار کے قانون کو نافذ کرنے کی سعی کی، ہم نے بدی کا سد باب کرنے کے بجائے ٹرانس جینڈر کا بل پاس کر کے بدی کو مزید فروغ دیا۔ فحاشی اور عریانی کو مزید پھیلانے کی کوشش کی۔

اس کے بعد عوامی نمائندوں اور پر اثر شخصیات نے اس بل کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے، اس بل کے خلاف بر سرپیکار آنے کے بجائے ایک دوسرے کو مورد الزام بنانا شروع کردیا۔ دشمن کے ناپاک عزائم کو تقویت ملتی رہی، شرعی قانون کے خلاف بل پاس ہوتے رہے اور ہم سیاسی اور مذہبی محاذ بنا کر ایک دوسرے سے بحث میں الجھے رہے۔

خدارا ! ہوش کے ناخن لیں اور سوچیں کہ ہمارا ملک کس رخ پر چل پڑا ہے؟۔