ہماری اقدار اور ہمارے رویئے

وقت کے ساتھ ساتھ ہماری اقدار بدلتی جا رہی ہیں ہمارے سماجی رویئے بدل چکے ہیں, جو بات ہمیں کل معیوب لگتی تھی اب وہ معیوب نہیں لگتی وہ باتیں ہمارے اندر اتنی سرایت کر گئی ہیں کہ برائی کی حس ہی ختم ہوگئی، اس کے ہونے کا احساس مردہ ہوچکا ہے۔ ہمارا رہن سہن، عادات واطوار، معاملات سب بدل چکا ہے پہلے پڑوسیوں کے گھرکھانا بھیجا جاتا تھا۔

اب کوئی گھر میں ایک دن کے لئےبھی رہنے آجائے تو کھانے کی فکریں بڑھ جاتی ہیں پہلے مہمان کو رحمت سمجھا جاتا تھا اب زحمت، شاید مہنگائی کی وجہ سے یا دلوں کی دوری کی وجہ سے۔ موبائل نے ہماری گفتگو کا وقت لے لیا اب ہم گھنٹوں موبائل پر چیٹنگ کرتے، انٹرٹیمنٹ دیکھتے ہیں اور اپنے ماں باپ بہن بھائیوں سے بات کرنے کو وقت نہیں، پہلے گفتگو کرکے معاملہ حل ہوجاتا تھا اب گفتگوہی نہیں ہوتی اور معاملات پچیدہ تر ہوتے رہتے ہیں بدگمانیوں کی ایک لمبی فہرست بن جاتی ہے پہلے لوگوں میں صبر ہوتا تھا جوائنٹ فیملی میں پوری زندگی گزار دیتے تھے اب عدم برداشت اور زیادہ کی حوس کے باعث خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر چکا ہے، اسکی وجہ بھی میری زندگی میری مرضی۔ جیسے چاہو جیو جیسے نعرے کے ذریعے میڈیا ڈراموں کے ذریعے ذہن سازی کر رہا ہے۔

اسی کے نتائج ہیں کہ انسان اب تنہا رہنا پسند کرنے لگا ہے، رشتوں کو وہ بوجھ سمجھنے لگا ہے اسکے نتیجے میں خودکشیاں عام ہو چکی ہے ہر کوئی ڈپریشن کا شکار بن رہا ہے ماں باپ بڑھاپے میں بھی اولاد کے ہوتے ہوئے بھی خوار ہو رہے ہیں یہ ہماری قدریں تو نہ تھی نوجوان بھاگ کر شادی کو آسان سمجھنے لگے اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کی ایک الگ روش پلنے لگی دعا زہرہ اور نمرہ جیسےواقعات اسی کے نتائج ہیں شرم و حیا عورت کا زیور ہے جس کو سلو پوائزن کی طرح چھین لیا گیا اب ڈوپٹے کے نام پر ایک پٹی ہی رہ گئی اور فیشن کے نام پر ٹائٹس کے ذریعے جسم کے خدوخال کو واضح کرکے معاشرے میں انتشار پھیلانے کا باعث بنتا جا رہا ہے ایسے میں میری اور آپکی۔

ذمہ داری ہے کہ اپنے گھروں میں اسلامی قدروں کو پروان چڑھائیں جلدی سونا، جلدی اٹھنا وقت کی پابندی، ملاقاتیں، حال و احوال، تحائف، نماز کی پابندی، صالح اجتماعیت، بڑوں وچھوٹوں کا احترام، استاد کی عزت، زندگی کا مقصد دے کر اچھا انسان بنانے کی کوشش کرنا ہماری ذمہ داری ہے جسکی بازپرس ہم سے ہونی ہےاپنی قدروں کو زندہ رکھیں اسے پانی دیتےرہیں یہ کبھی نہیں سوکھے گیں۔