پاکستان کی سالمیت اور دفاع کے تقاضے‎‎

پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے تحریک پاکستان کے نتیجے میں عرصہ سات سال میں اپنے اہداف سے کم کامیابی پر قناعت کی گئی تو نظریے کی خاطر  کشمیر، گورداسپور، بٹالہ، انبالہ، فیروز پور اور کئی ایک علاقوں کے ساتھ کی جانے والی بددیانتی کو جی کڑا کر ہضم کیا گیا تو نظریے کی خاطر۔ یاد رہے کہ نظریے سے مراد عبادت نہیں تھی اسلام کی حاکمیت تھی، عدل اجتماعی کا نفاذ تھا۔ گھٹن سے نکال کر اسلام کی امتیازی خصوصیات اور ان کے دور رس نتائج سے دنیا کو آگاہ کرنا مقصود تھا۔

بلاشبہ قائد نے اسلام کی تجربہ گاہ قائم کرنے کے لئے انتھک محنت کی۔ جسد واحد کی بنیاد قرآن سے تعلق کو بتایا۔ مگر افسوس کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی اثاثوں کی تقسیم میں نا انصافی، افواج کے سلسلے میں کی گئی طے شدہ سازش، کشمیر کے ضمن میں غیر اصولی طریقہ کار اپنا کر بھارت نے نومولود پاکستان کی سالمیت کو تہہ و بالا کرنا چاہا مگر نظریے میں یکسوئی اور اتحاد، تنظیم، یقین محکم نے ریاست پاکستان کی لاج رکھ لی۔

پاکستان کی سالمیت اور دفاع کو اندرونی خطرات میں سے سب سے بڑا خطرہ “قادیانی لابی” سے ہے جو پاکستان کو غیر مستحکم کر کے کفار کی جھولی میں ڈال دینے کے مشن پر معقول معاوضے کے عوض کفار کے لئے کام کر رہی ہے۔ کلیدی عہدوں پر ان کی بھرتی ملکی سالمیت کو اپنے ہاتھوں خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

پاکستان کی سالمیت اور دفاع کا ایک اور اہم باب مسئلہ کشمیر ہے گو کہ بھارت نے 48ء، 65ء، 71ء میں منہ کی ہی کھائی تا ہم میدان جنگ کی شجاعت اور اسلحے کی تیاری ہی سالمیتِ وطن کے لئے کافی نہیں، دبنگ اور بے خوف لیڈروں کی بھی شدید ضرورت ہے جو اقوام عالم میں پاکستان کا مقدمہ جرات مندی سے لڑ سکیں۔

سالمیت اور دفاع کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ففتھ جنریشن وار کے طریقہ کار کو سمجھا جائے، پروپیگنڈا وار کے ذریعے دشمن کس طرح عوام پر قابو کرتا ہے، کمپیوٹر کے پیچھے بیٹھے ہارڈ ہدف کیسے عوام، اداروں، نظام کو سوفٹ ہدف بناتے ہیں۔ اداروں کو کس کامیابی سے لڑایا جاتا ہے، احساس محرومی ہائبرڈ وار کا حصہ کس کامیابی سے بنایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اب روایتی جنگوں کا دور ختم ہو چکا۔ (یہاں ہم اقوام عالم کے ان دوہرے رویوں سے صرف نظر کرتے ہیں جو کشمیر، فلسطنن اور مسلمانوں کے بارے میں اپنائے ہوئے ہیں)۔ اب ففتھ وار کے ہتھیاروں۔ سوشل میڈیا، اخبارات، کمپیوٹر سے لیس ہونا پڑے گا۔ لہٰذا بچوں کو ففتھ وار کے ان جدید ہتھیاروں سے دور نہ کریں، انہیں سائبر کرائم کو سمجھنے والا، آئی ٹی کا ماہر اور سوشل میڈیا کا مجاہد بنا دیں تاکہ وہ ہائبرڈ وار کا شکار نہ ہوں۔ انھیں ففتھ وار میں اصل دشمن کی شناخت کا علم ہو۔ دشمن انجانے میں انہیں بلوچی تحریک آزادی کا کارندہ بنا کر اپنے مذموم مقاصد پورے نہ کرلے۔ سندھی محرومیوں کو دفاع وطن کا اندرونی دشمن نہ بنا دے۔ ہمیں قبائلیوں، ڈرون حملوں اور طالبان کے بارے میں امریکی پراکسی وار کا مقابلہ مضبوط انٹیلی جینس سے کرنا ہو گا۔

پون صدی بیت چکی۔ اس پون صدی میں پچھترواں یوم آزادی پھر منایا گیا مگر سیاسی آلودگی زوروں پر ہے، دشمن اپنے مشن میں کامیاب جا رہا ہے، ملک کے مقتدر ادارے ایک دوسرے پر الزام تراشی و بہتان تراشی میں مشغول ہیں ، اپنی خرابیوں کی اصلاح کی بجائے انہیں ملکی سالمیت کے لئے وہ بم بنایا جا رہا ہے جس کا ریموٹ ہزاروں میل کے فاصلے پر دشمن کے ہاتھوں میں ہے۔

یقیناً ملکی ترقی کے لئے ہمیں معاہدے بھی کرنے ہوتے ہیں۔ اپنے اہداف بھی حاصل کرنے ہوتے ہیں، اپنا وقار بھی بر قرار رکھنا ہوتا ہے، دشمن پر رعب بھی طاری رکھنا ہوتا ہے، مشن کی تکمیل بھی کرنا ہوتی ہے، محرومیوں کا ازالہ بھی کرنا ہوتا ہے۔ وطنیت، لسانیت، صوبائیت کے تعصبات کی نفسیات کو سمجھ کر ان کا مؤثر حل بھی کرنا ہوتا ہے۔ یقینا یہ سب تبھی ممکن ہے جب نظریہ ہمارے دلوں میں راسخ ہو گا، لا الہ الااللہ کا شعور ہو گا اور محمد رسول اللہ کا مضبوط عقیدہ ہماری صفوں کو منظم، ہمارے افراد، اداروں، تنظیموں کو منظم و متحد رکھے گا۔ غرض پاکستان کی سالمیت اور دفاع کے تقاضے بعینہ وہی ہیں جو نظریہ اسلام اور نظریہ پاکستان کی سالمیت کے تقاضے ہیں۔ پاکستان ہماری مسجد ہے کا شعور ہی ہمیں اس کا دلیر اور اولو العزم محافظ بنا سکتا ہے۔ اللہ ہمیں پاکستان کی سلامتی اور دفاع کے ہر تقاضے سے روشناس فرمائے۔ آمین۔