چھن گئےسپنے، لُٹ گیا ساراجہاں

قدرتی آفات اللہ کی طرف سے جو یہ پیغام دیتی ہیں کہ انسان اپنے رب سے غافل نہ ہو اور نہ ہی موجودہ زندگی کے انجام سے بے پرواہ ہو۔

گزشتہ دنوں سیکریٹری جنرل پاکستان حلقہ خواتین دردانہ صدیقی کی قیادت میں وفد کا حیدر آباد، لطیف آباد، قاسم آباد، گورنمنٹ زبیدہ کالج اور ٹنڈو آدم ضلع سانگھڑ میں سیلاب زدگان کے متاثرین کے کیمپس کا دورہ ہوا۔ وفد میں ڈپٹی سیکریٹری حلقہ خواتین عطیہ نثار، سیکریٹری حلقہ خواتین تسنیم معظم، قائم مقام ناظمہ صوبہ سندھ عظمیٰ عمران، نائبات سندھ عائشہ ودود، شگفتہ ابراھیم، معتمدہ سندھ انوری بیگم، براڈ کاسٹر جرنلسٹ فہمیدہ یوسفی، ڈائریکٹر میڈیا سیل عالیہ منصور، نگران نشرواشاعت صوبہ سندھ عالیہ شمیم، نگران الخدمت صوبہ سندھ نجمہ ارشاد شامل تھیں۔

علی الصبح جب کہ ابھی اذان کی پر نور ساعتیں گونج رہی تھیں کہ گاڑی دروازے پر آکھڑی ہوئی۔ نماز فجر کی ادائیگی کےبعد متاثرین کے لیے تیار گھر کا کھانا اور ضروریات زندگی کا سامان رکھوایا اور گاڑیوں کے قافلے کے پیچھے عازم سفر ہوئے اور سولنگی کے طے شدہ مقام پر جا کر اترے۔ سولنگی میں قائم دفتر جماعت اسلامی خواتین میں سیکریٹری جنرل پاکستان اپنی ساتھیوں اور ذمہ داران کے ہمراہ پہلے ہی پہنچ چکی تھیں۔ نائب ناظمہ سندھ شگفتہ ابراھیم اور نأئب گاجہ مولی۔سولنگی ضلع حیدرآباد، حنا شاہ رہائشی فاطمہ نے گرما گرم چائے و ناشتہ کروایا گو اس ناشتے کی ضرورت تو نہ تھی لیکن ان کا دلی خلوص اور پرزور اصرار پر گرم چائے نے تازہ دم کردیا۔ پھر قافلہ ٹنڈو أدم ضلع سانگھڑ کی جانب روانہ ہوا، راستےمیں سیلاب کی بے انتہا تباہ کاریاں دیکھنے کو ملیں۔ پانی میں ڈوبے کیلے کے درخت، ٹوٹی عمارات جو کبھی گھر ہوں گے۔ تباہ حال کھیت کھلیان جہاں کبھی فصلیں ہوں گی ان پر دبیز پانی کی تہہ تھیں۔

گٹر کا پانی، کیچڑ، دلدل اور خاموش پانی کا ہولناک سناٹا محسوس ہوا۔ جہاں زندگی دوڑتی بھاگتی تھی وہاں اب سناٹا تھا یا روتی سسکتی زندگی تھی کہیں ٹوٹے کہیں ڈوبے کہیں کچے کہیں نا پختہ گھر تھے۔ بعد اذاں ہماراپہلا اسٹاپ ٹنڈو آدم ضلع سانگھڑ میں قائم خیمہ بستی میں ہوا، سیکریٹری جنرل پاکستان دردانہ صدیقی نے پناہ گزین خواتین سے خطاب کیا ان کی دلجوئی کی اور خیمہ بستی میں موجود پناہ گزین خاندان میں نقد رقوم کے علاوہ کھانا، ادویات، کپڑے، مچھر دانی و دیگر ضروریات زندگی کا سامان دیا۔بچوں میں بسکٹس و ٹافیاں تقسیم کیں اور گھرسے لایا کھانا تقسیم کیا اور ان کے مساٸل بھی پوچھے، کیمپ میں موجود متاثرین سیلاب نے اپنی زبان میں مساٸل بتاتے ہوئے کہا….

مختاراں بی بی : ہمارا پورا ضلع سیلاب میں ڈوب گیا گاؤں کے گاؤں پانی میں بہہ گئے۔ کھڑی فصل تباہ ہوگئی۔ جان بچا کر بھاگے۔ میرے ہاتھ سن ہوگئے ہیں۔

رشیداں:  ٹوٹی پھوٹی اردو میں بتارہی تھی کہ ہر طرف پانی ہے، تباہی ہے، انسان ، مویشی سب پانی میں گھرے ہیں، کھیت کھلیان ڈنگر سب بہہ گئے۔ سب ختم،  اوپر والے کا آسرا ہے۔ میرا بیٹا کام پر گیا تھا نہیں ملا پتہ نہیں کس حال میں ہے۔ وہ بلکتی روتی ماں اپنے بچھڑے بچے کو پکار رہی تھی۔

بوجھل دل کے ساتھ ہم نے اگلی منزل کی جانب سفر شروع کیا۔ راستے میں ناظمہ ضلع سانگھڑ فرحت حیات نے نماز ظہر و طعام کی مہمان نوازی کی۔ یہاں پر کارکنان ٹنڈو آدم سے دردانہ صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے انکے جذبوں اور متاثرین کے لئے امدادی سرگرمیوں کی تحسین کی اور کہا کہ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی عافیتوں کاصدقہ دیں اور مصائب میں گھرے اہل وطن کی ہر ممکن مدد کریں اور ناظمہ ضلع کو سیلاب متاثرین کی حلقہ خواتین جماعت اسلامی کی جانب سے امداد کےلئے فنڈ دیا۔

قاٸم مقام ناظمہ صوبہ سندھ عظمیٰ عمران نے بھی دلجوئی کرتے ہوئے کہا کہ آج جب کہ سرزمین پاکستان کا 60 فی صد سے زاٸد حصہ سیلابی ریلے کا شکار ہوچکا ہے ہم بے انتہا غم سے دوچار ہیں۔ حالیہ تباہ کن سیلابوں نے تین کروڑ سے زاٸد افراد کو بے گھر کردیا ہے۔ دس لاکھ سے زاٸد گھر تباہ ہو چکے ہیں۔سندھ اور پنجاب کے علاوہ بالائی علاقوں میں پلوں سڑکوں شاہراؤں اور بے انداز جانوں کی تباہی سے ہر آنکھ اشکبار ہے۔ مزید سندھ بلوجستان میں فصلوں کی تباہی نے سنگین صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔

نماز ظہر کی اداٸیگی و کھانے کے بعد ہمارا سفر حیدرآباد کی جانب ہوا جہاں ناظمہ ضلع حیدرآباد رخسانہ تنویر نے اپنی ناٸبات ساتھیوں کے ہمراہ خیر مقدم کیا اور حیدرآباد میں حلقہ خواتین کی امدادی سر گرمیوں کے حوالے سے وفد کو بریفنگ دی۔ اسکے بعد سیلاب متاثرین کے کیمپس کادورہ ہوا۔ یہ کیمپس سرکاری اسکولوں میں قاٸم کیے گٸے تھےجہاں الخدمت اور جماعت اسلامی کے مقامی ذمہ داران نےمتاثرین کو کھانا پانی اور دیگرضروریات زندگی کی چیزیں فراہم کررہی ہے۔

سیلاب متاثرین کی روداد: گورمنٹ زبیدہ کالج حیدرآباد میں قاٸم کیمپ پر ہوا وہاں موجود معمر خاتون جنہوں نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی درخواست کی تھی ہمارے درمیاں شٹل کاک برقعہ پہنے بلک بلک کر روتے ہوئے بتا رہی تھیں کہ ہم سید ہیں شاہ کے خاندان سے ہیں کسی غیر مرد کے سامنے نہیں آتے شدید گرمی۔ بجلی ندارو، تمام گرل پر پردے کی چادریں ڈالے وہ خاتوں اپنی بپتا سنا رہی تھیں۔ ان کے ہمراہ ان کی جواں سالہ بہو نے بتایا کہ دو وقت کا کھانا ملتا ہے چائے ناشتہ نہیں ملتا۔ کھانے میں صرف چاول ہوتے ہیں جو بچے نہیں کھاتے پھر بھوک میں روتے ہیں پیٹ خراب ہو گئے ہیں، کپڑے گندے کیسے کہاں دھولوں کوئی جگہ نہیں رات بھر مچھر تنگ کرتے ہیں۔

وہیں کیمپ پر موجود سولنیا نے اپنی گردن سے بہتا پسینہ پوچھتے بتایا کچھ کواٸل ہم کو ملے تھے مگر وہ جل کر نہ دیے مچھر رات کو تنگ کرتےہیں دن میں بجلی نہیں ہوتی۔ گورنمنٹ کے اداروں سے کوئی پرسان حال نہیں پانی صاف نہیں ہے۔ حکمرانوں کے بے حسی اور غفلت نے ہمارے درد کو مزید بڑھا دیا ہے۔ پیچش اور ہیضہ کی بیماری نے معصوم بچوں کو لاغرکر دیا ہے۔

سعدیہ اختر:  کا کہنا تھا کہ کل تک ہم پناہ دیتے تھے آج ہم خود پناہ گزین ہیں۔کل تک ہمارا ہاتھ اوپر والا تھا ہم خود مدد کرتے تھے آج ہمارا ہاتھ نیچے والا بن گیا ہے۔ میں نے سوچا بھی نہ تھا کبھی کہ اس طرح دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے پڑیں گے۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رودی۔  بوجھل دل اور لرزتے قدموں سے ہم نے قاسم آباد کا رخ کیا وہاں بھی سیکریٹری جنرل پاکستان نے خواتین پناہ گزینوں کی دلجوئی کی، ان کے مسائل کی داد رسی کی اور نقد رقوم، ادویات، کواٸل و دیگر چیزیں تقسیم کیں۔

کھلےآسمان تلے بے یارو مددگار یہ متاثرین سیلاب ارباب اختیار سے شکوہ کناں ہیں مدد کے لیے حاصل ہونے والے خیمے ان تک نہیں پہنچے، حاملہ عورتیں، نوزاٸدہ بچے رل گئے ہیں۔

واپسی کا سفر بہت بوجھل تھا دل دکھ سے بھرا ہوا تھا،سڑکوں پر پانی آنے کی وجہ سے کئی جگہوں  بڑی دشواری کے ساتھ گزرنا پڑا۔

سیلاب متاثرین جماعت اسلامی اور الخدمت کے شکر گذار بھی ہیں کہ ان کے دل میں خوف خدا ہے، احترام انسانیت ہے، درد ہے، ہماری اس کسمپرسی میں اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر جس طرح الخدمت نے اپنےآپ کو پیش کیا ہے ہم انہیں ان کے جذبوں کوسلام کرتے ہیں۔ ہم کو صاف پانی پہنچاتے ہیں صفائی کے بارے میں بتاتے ہیں ہم دعا کرتے ہیں اللہ الخدمت کو آپ کو اجرعظیم عطا فرمائے۔