گیارہ ستمبر

کیا آپ کو لگتا ہے کہ تکمیل پاکستان کا سفر ہمارے منتخب کردہ گائیڈ کی رہنمائی میں ممکن ہو سکے گا، جہاز ایسے پیچیدہ ذریعے سے لے کر سائیکل ایسی سادہ سواری بھی کسی ماہر ڈرائیور کی متقاضی ہوا کرتی ہے۔ پھر تکمیل پاکستان کا سفر کیوں نہ متاثر ہو جب ڈرائیور بھی اناڑی ہوں اور گائیڈ بھی نظریے سے مخلص نہ ہوں۔ جانتے ہیں قائد نے جو خواب شرمندہ تعبیر کر دکھایا وہ خواب کیا تھا؟ ایک ایسی ریاست کا خواب جہاں مسلمان بغیر کسی روک ٹوک کے اسلام پر عمل کر سکیں گے۔

ایک عظیم فلاسفر نے جو خواب دیکھا ایک عام انسان بھی اس کی تعبیر کے لئے کوشاں ہو گیا۔ یوں قائد کی سربراہی میں پاکستان معرض وجود میں آیا ۔ مگر پھر مفاد پرست اور اپنی غرض کے لئے سیاست کے میدان سجانے والوں نے نظریے کو پس پشت رکھتے ہوئے کارل مارکس سے درس لے کر پاکستان کو سنوارنے کی کوشش کی تو کسی نے وردی کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے خزانے کی چابیاں اپنی دسترس میں لے لیں ۔ کسی نے نظریے کا لبادہ اوڑھ کر پاکستان کی جڑیں کمزور کیں تو کسی نے مدینہ کے ماڈل کے جھانسے دے کر پاک سر زمین کا تقدس پامال کیا۔

ہر سال کا 11 ستمبر گواہ بن جاتا ہے کہ تعمیر کا کام ٹھیکیدار کی غفلت اور نا اہلی کے سبب رکا ہوا ہے اور مستری، مزدور اس ٹھکیدار کی نگرانی میں مال مفت کے اسیر بن چکے ہیں، تعمیر کے کام اور گھر کے استحکام کے لئے کسی کے پاس وقت نہیں ہے تو کوئی دانستہ جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے کچھ جوہر شناس جو استحکام پاکستان کے لئے سیاسی آلودگیوں سے پاک کر کے ملک کو قائد کا پاکستان بنانے کا جذبہ رکھتے ہیں عوام ان کو راہب اور پنڈت سمجھ کر پاکستان کی کشتی کا کنٹرول دینے سے گریزاں ہی رہی ہے۔

پھر ستم ظریفی کی انتہا دیکھئے کہ قائد کے سالاروں نے ہی پاکستان کو کئی بار نا قابل تلافی نقصان پہنچایا۔ کوئی ملک کی بندر بانٹ میں معاون ہوا تو کسی نے ہمسایہ بلکہ برادر ملک کو دہشت گرد گردانتے ہوئے امریکی حملے کی راہ ہموار کی اور یوں 11 ستمبر کو قائد کی روح کو صدمہ پہنچایا جب برادر ملک پر غاصب امریکہ نے پاکستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے حملہ کیا ۔

11ستمبر اس بار بھی گواہ بن جائے گا کہ بنئے اور انگریز کے پنجے سے آزادی پانے والے شاہین ایسے قوانین کی منظوری کے لئے سر گرم ہیں جو ان کے دین اور اخلاق کی تباہی کے ساتھ ساتھ انہیں اسی انگریز کی صف میں لا کھڑا کرے گا جسے سور کے گوشت نے سور بنا دیا ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ قائد کی وفات کا دن پاکستان کی وفات کا دن نہ بن جائے تو ہمیں ہوش کے ناخن لینے ہوں گے یاد رہے پاکستان کی وفات کا مطلب نظریے کی وفات ہوتا ہے۔ جانتے ہیں جب قائد بدر محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ اڑی تو تین گروہوں میں بٹ جانے والے لشکر میں سے وہی افراد قابل ستائش ٹھہرے جو میدان میں ڈٹے رہے۔ یہ بھی آپ کو معلوم ہو گا کہ صدیق اکبر نے محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے جدائی کے صدمے میں بھی ہوش کا دامن تھامے رکھا اور لشکر اسامہ کو منکرین نبوت اور جھوٹے نبی کی سرکوبی کے لئے روانہ فرما دیا۔ گویا کارواں کے افراد مخلص اور حکیم ہوں تو قائدین کی جدائی تحریکوں اور ملکوں کے لئے صدمہ تو ہوا کرتی ہے مگر نظریے کی موت نہیں ہوا کرتی۔ اللہ ہمیں قائد کے پاکستان کو مستحکم کرنے کے لئے چن لے۔ آمین ۔