ہم کب سدھریں گے؟

دیکھا جائے تو اس وقت ملک کو بیشتر مسائل کا سامنا ہے، پھر پورے ملک میں سیلاب اور بارشوں کی وجه سے جو صورت حال ہے اس پر تقریباً ہر آنکھ اشکبار ہے، وڈیوز دیکھ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔

مخلص افراد ان مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کے لئے آگے آگےہیں، اس سلسلے میں متعدد رفاعہ عامہ کے ادارے بڑی جفاکشی اور ایمانداری کے ساتھ مصروف عمل ہیں ان اداروں کی کارکردگی سب کے سامنے ہے یہ لوگ حقیقت میں قابلِ تعریف ہیں، لیکن اس کڑے وقت میں بھی کچھ اپنی پرانی ڈگر پر گامزن ہیں، جگہ جگہ ان سیلاب زدگان کے نام پر چندہ اور امداد طلب کی جارہی ہے تقریباً ہر سڑک پر امدادی کیمپ نظر آرہے ہیں لوگ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کے لیے ان نام نہاد امدادی کیمپوں میں ضروریات زندگی کا سامنا اور چندہ دے رہے ہیں سوال یہ کہ یہ امداد ان متاثرین تک ایمانداری سے پہنچائی جارہی ہے یا نہیں میں ایک عام شہری کی حیثیت سے عوام الناس کی رائے آپ تک پہنچا رہی ہوں کہ لوگوں کی اکثریت ان سے مطمئن نظر نہیں آتی ہمارے چند خدمت خلق کے اداروں کے بارے میں لوگ مطمئن ہیں اور ان کی خدمات کو سراہتے بھی ہیں اور وہ انہیں بے فکر ہو کر چندہ اور دیگر اشیاء دے رہیں ہیں کہ یہ ادارے ایمانداری سے آفت زدہ علاقوں تک امداد پہنچائیں گے۔

کیا یہ وقت بھی مفاد پرستی اور خود غرضی کا ہے، اپنی جیبیں بھرنے کی لالچ میں خوف خدا سے غافل انہیں اپنے آخرت کے انجام کا ڈر نہیں، یہ وقت تو استغفار اور رجوع الہی کا ہے، رب سے ڈرنے والوں کی تو ان حالات سے آنکھیں نم ہیں۔ بےحد افسوس کا مقام ہے کہ ہماری قوم (اکثریت) اب بھی نہیں سدھری تو کب سدھرے گی۔

محلوں میں رہنے والے اب بھی اپنی دنیاوی زندگی میں مگن ہیں عیش و آرام، نازیبا لباس، یورپ اور امریکہ کے سیر سپاٹے، وہی دھوکہ بازی، لوٹ مار، کہیں بھی تو تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے سیاست دانوں سے لیکر عام آدمی تک وہی پرانی ڈگر پر ہیں، کیا یہ سیلاب اللہ کی طرف سے ہمارے لئے تنبیہ نہیں، کیوں ہم غافل ہیں اللہ سے ڈرنے والے تو ہر قدم احتیاط سے اٹھاتے ہیں کہ کہیں کوتاہی نہ سرزد ہو جائے، افسوس بے حد افسوس کہ ہم اس قدر تباہی کو دیکھ کر بھی نہیں سدھرے، وہیں کے وہیں ہیں، جو اپنی حالت خود نہیں بدلتے تو انکے لیے کوئی دوسرا کیا کرسکتا ہے۔ یہ صورتحال آج ہم سب کے انتہائی افسوس ناک ہے۔