جدید تدریسی تقاضے اوراساتذہ کی ترجیحات (آخری قسط)

برمنگھم یونیورسٹی کے ماہر تعلیم ڈین اوہارا(Dan O’Hara)کے مطابق اسکیومارفزم تکنیک، ٹیک انڈسٹری میں صرف چند سالوں سے ہی استعمال کی جارہی ہے۔ اُن کے مطابق اسکیومارفزم کوئی ایسی شئے نہیں ہے کہ جسے ڈیزائین کیا جائے۔ بلکہ یہ مخصوص تعلیمی ماحول اور ٹیکنالوجی کے تعامل سے از خود انجام پانے والا اکتساب ہے۔ سہل انداز میں اسے ماحول کے ذریعہ اکتساب کا نام دیا جاسکتا ہے۔ انسانوں کے اندر موجود جمالیاتی حس، جس طرح انہیں حسن و قبیح کا احساس دلاتی ہے،اسکیومارفز م بھی ایک خاص تعلیمی نظام میں ٹیکنالوجی سے مل کر از خود اکتساب کو فروغ دیتی ہے۔

فِلکرFlickr(فلکر ڈاٹ کام) پر رکھی گئی لاتعداد تصاویر اکتساب کے آفاقی معیار کی نمائندگی کرتی ہیں۔ یہ اکتسابی عمل میں اہمیت کی حامل ہیں۔ایپل اسٹور پر ہر منٹ میں 47000سے زیادہ ایپس ڈاؤن لوڈ کئے جاتے ہیں۔ اس بات سے تشنگان علم کی علمی پیاس کی شدت اور حصول علم کی نئی جہات کا انداز لگا یا جاسکتا ہے۔ 2004 سے قبل اس طرح کی سہولیات دستیاب نہیں تھیں۔ آن لائن ڈیٹا کی دستیابی نے سیکھنے کے خواہش رکھنے والے افراد کو بہت تیزی سے اپنی جانب راغب کیا ہے۔ٹیکنالوجی نے سیکھنے والوں کو بیک وقت کئی مہارتوں اور استعدادوں کی نہ صرف معلومات بہم پہنچائی ہیں بلکہ انھیں عبورسے بھی ہمکنار کیا ہے۔ آن لائن ڈیٹا نے ایک آدمی، ایک کام کے نظریے کو مات دے کرآدمی کو کثیرالجہات بنا دیا ہے۔

تیزی سے بدلنے والی دنیا میں یہ ایک بڑی تلخ حقیقت ہے کہ اسکولوں میں سالہاسال سے کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔آج بھی اسکولوں میں روایتی انداز میں یا پھر نمائشی طور پر ٹیکنالوجی کو جگہ دی گئی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ٹیکنالوجی پر مبنی طریقہ تدریس کے ناکام تجربات کی بھی کئی رپورٹس منظر عام پر آچکی ہیں۔

ـ”Failed iPad Experiment Shows BYOD Belongs in Schools.”

“LA,Cancles iPads in the schools’ program,a failure of vision,not technology.

اسکولوں میں کثیر سرمایہ کاری کے باوجود ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ٹیکنالوجی کو مدارس میں نافذ کرنے کے ہمارے منصوبے،طریقے اورحکمت عملیاں ناکام ہوگئی ہیں۔ حقائق کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ تعلیم اور تعلیمی اداروں میں ٹیکنالوجی کے نفاذ میں ناکامی ٹیکنالوجی کی ناکامی نہیں بلکہ ہمارے تعلیمی نظام، تعلیمی منصوبہ بندی، تعلیمی نصاب، درسیات اور تعلیمی طریقہ کار کی ناکامی ہے۔

بحیثیت معلم ہماری غلطیوں میں ایک اہم غلطی کاپی پیسٹ(نقل، چسپاں) ہے۔ Ctrl+C اور Ctrl+V سے اکتسابی و درسیاتی مسائل کا حل ناممکن ہے۔ خاص طور پر اس طرح کے عمل سے مسائل اور بھی پیچیدہ اور پریشان کن بن جاتے ہیں۔ کاپی پیسٹ کا غلط استعمال اسکولوں میں ٹیکنالوجی کے نفاذ کے دوران ریکارڈ کی گئی غلطیوں میں سے ایک نمایاں غلطی کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔

مذکورہ مباحث کی روشنی میں ایک نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ صورت حال میں تدریسی منظر نامے کو بڑی حد تک تبدیل کرنا بے حد ضروری ہے۔ بنیادی تدریسی اصولوں میں تبدیلی کے لیے ایک فعال تدریسی نمونہ و ماڈل کی ضرورت ہے تاکہ کاملیت کے حصول کے سفر میں ہمیں پیچھے مڑکر دیکھنے کی ضرورت نہ پیش آئے۔ اساتذہ کو جامع تعلیم(Holistic Education) کی حمایت میں آگے آنا چاہیے۔ جامع تعلیم کی فراہمی سے سیکھنے والوں کی اکتسابی عادات میں فرق پیدا ہوگا بلکہ شرح اکتساب میں بھی خوش گوار تبدیلی واقع ہوگی۔ کمرہ جماعت کی اکتسابی سچائیوں میں ایک سچائی یہ بھی ہے کہ طلبہ جس استاد کو پسند کرتے ہیں اس کے مضمون کو بھی پسند کرتے ہیں۔ باالفاظ دیگر یوں کہہ لیجئے کہ طلبہ اسی مضمون کو پسند کرتے ہیں جس کی تدریس ان کے پسندیدہ اساتذہ انجام دیتے ہیں۔ اس حقیقت کے پیش نظر اساتذہ کے پاس طلبہ کی فلاح و بہبود پر مبنی ایک مبسوط روزمرہ کا واضح منصوبہ ہونا چاہیے۔ اس منصوبے سے طلبہ نہ صرف کامیابی کی سمت جست لگائیں گے بلکہ ان کی اکتسابی مسرت کے اشاریے میں بھی نمایاں ترقی ریکارڈ کی جائے گی۔

درس واکتساب کے تشویشناک پہلوؤں میں اساتذہ کے لیے جو سب سے زیادہ تشویش کا پہلو ہے وہ درحقیقت کمرہ جماعت کا انتظام و انصرام(Classroom Management) ہے۔ اساتذہ اگرطلبہ سے محبت و شفقت سے پیش آتے ہیں تو کلاس روم کا انتظام بد نظمی و بھونڈے پن سے محفوظ رہے گا۔ بیشتر اساتذہ کمرہ جماعت کے انتظام و انصرام کو صرف نظم و ضبط کے زاویہ سے ہی دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک کمرہ جماعت کے انتظام و انصرام سے مراد جماعت میں طلبہ کو خاموش رکھنا ہے۔ کمرہ جماعت کا انتظام و انصرام درحقیقت تدریسی اہداف کا حصول، تدریسی طریقہ کار و تکنیک کا اطلاق، مثبت تدریسی افعال،تدریسی محاصل پر نگاہ اور طلبہ کے اکتساب کی رفتار و ترقی کی نشاندہی وغیرہ سے منسوب ہے۔

سینئر اساتذہ خاص طورپر کمرہ جماعت کے تصور کو وسیع تناظر میں دیکھیں۔ اپنے ساتھی اساتذہ کو کمرہ جماعت کے کامیاب انتظام و انصرام پر مبنی ایک واضح فریم ورک (عملی منصوبہ) فراہم کریں، تاکہ وہ اپنے کمرہ جماعت کے انتظام و انصرام کا موثر منصوبہ ترتیب دیں۔طلبہ کو درسی سرگرمیوں میں مصروف رکھتے ہوئے کچھ وقت کے لیے تو کمرہ جماعت کے انتظام و انصرام کو بحال رکھا جاسکتا ہے۔لیکن ایک فعال کمرہ جماعت کے (کلاس روم) کے قیام کے لیے اساتذہ کا مشفقانہ رویہ، ہمدردانہ طرز عمل،طلبہ،اساتذہ کے مابین خوش گوار تعلقات بہت اہم ہیں۔ ایک بے جان خیالی منصوبہ کمرہ جماعت کے انتظام و انصرام کے لیے کافی نہیں ہے۔ کمرہ جماعت کے انتظام و انصرام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ایک حقیقی(فزیکل/عملی) مبسوط،جامع، فعال ومتحرک منصوبے کی ضرورت درپیش ہوتی ہے۔

اساتذہ کے لیے پیشہ وارانہ ضابطہ اخلاق ضروری ہے جو نہ صرف ان کی اساسی ذمہ داریاں کا احاطہ کرتا ہو بلکہ طلبہ کی زندگی میں ان کے کردار،معنویت اور اہمیت کو بھی وضاحت سے پیش کرتا ہو۔ تدریسی پیشہ وارانہ ضابطہ اخلاق سے اساتذہ کی تدریس سے وابستگی و بلند عزائم ،درس واکتساب کے اہداف کے حصول میں ان کی فعال شرکت دار ی سے ظاہر ہونا چاہیے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ جو شخص بھی تدریس کو ایک پیشہ کے طور پر اپنا نا چاہتا ہے وہ خود کومثالی تدریسی نظریات (ٹیچنگ آئیڈیلس) کے مطابق ڈھال لیں۔ اساتذہ کو ہر پل یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ استاد معاشرے کا ایک باوقار اور معتبر فرد ہی نہیں ہے بلکہ ہر گھڑی اس پر اس کے شاگردوں اور معاشرے کی نگاہیں گڑی رہتی ہیں۔ پیشہ تدریس اسی لیے تقاضا کرتا ہے کہ استاد پرسکون، صابر مزاج، ملنسار، ہمدرد، مونس و غم خوار، بہتر سامع اور اچھی و بہتر گفتگو کرنے والا ہو۔ ان صفات کو اپنی ذات میں پیدا کرنے کے اساتذہ کو شب روز سال کے بارہ مہینے عملی مشقتوں ومجاہدوں سے گزارنا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے استاد کو سماج میں عزت و عظمت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔