تاسیس سے حال تک‎‎

26 اگست ہر سال آتا ہے اور للہیت، اخلاص اور نظام اسلامی کے طلبگاروں میں ایک نیا ولولہ پھونک جاتا ہے، صبغتہ اللہ میں رنگ جانے اور رنگ دینے کا جذبہ جوان ہو جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ 26اگست کی تاریخی حیثیت۔ تبھی ہم اس گروہ اہل حق کو سراہا بھی پائیں گے اور اس کا عملی حصہ بننے کی تڑپ بھی جنم لے گی۔

26 اگست، دراصل تاسیس جماعت اسلامی کا دن ہے وہ دن جب ایک داعی حق کی پکار پر 75 افراد برصغیر کے کونے کونے سے لبیک کہتے ہوئے اکٹھے ہوئے۔ یوں ہر طبقہ فکر اور شعبہ زندگی کی نمائندگی کرنے والے حضرات کے مختصر سے گروہ پر ایک جماعت کی بنیاد رکھ دی گئی۔ تشکیل جماعت اسلامی کے دو سال بعد اکتوبر 1943ء میں در بھنگہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے کہا، ہمارے لیے خارج سے بڑھ کر باطن اہمیت رکھتا ہے۔ اس وجہ سے محض تنظیم اور محض ایک چھوٹے سے ضابطہ بند پروگرام پر لوگوں کو چلانے اور عوام کو کسی دھڑے پر لگا دینے سے ہمارا کام نہیں چلتا۔ ہمیں ایک عوامی تحریک چلانے سے پہلے ایسے آدمی تیار کرنے کی فکر کرنی ہے۔ جو بہترین اسلامی سیرت کے حامل ہوں اور ایسی اعلیٰ درجے کی دماغی صلاحیتیں بھی رکھتے ہوں کہ تعمیر افکار کے ساتھ اجتماعی قیادت کے دوہرے فرائض سنبھال سکیں۔ اگر چہ عمومی تربیت سے قبل یہ ایک ٹاسک تھا جو مودودی فکر نے پورا کرنے کے لئے بھی، مکمل ڈھانچہ دیا۔ حق کی صدا لگانے والے داعی “امام مودودی” کو ہی اس گروہ نے اپنا قائد تسلیم کر لیا۔ جو کہ سنہ 41ء تا 72 تنظیم کا قائد رہا ۔ 72ء سے 79ء تک دوسرے امیر ” میاں طفیل محمد”کی تنظیمی طور پر اطاعت کرتا رہا، تا ہم فکری محاذ پر ڈٹا رہا ۔

گویا، جماعت اسلامی ایک غیر موروثی،شورائی، نظریاتی، غیر مسلکی، قومیت سے بالا اور غیر لسانی تنظیم ہے۔ یہی وہ نمایاں خصوصیات ہیں جو اسے دوسری قومی جماعتوں سے منفرد کرتی ہیں، مودودی کی اولاد نے امارت پر قبضہ کیا نہ میاں طفیل محمد کی اولاد نے امارت کا خواب دیکھا۔ قاضی حسین احمد کی اولاد کو ارت ملی نہ ہی سید کی اولاد امارت کا دعویٰ لے کر اٹھی۔ دوسری پارٹیوں کی طرح آپس کی رساکشی، کشمکش، تصادم تو دور کی بات امارت کو خالصتاً ارکان کی رائے پر محمول رکھا گیا۔ شورائیت بھی اسے قومی پارٹیوں سے ممتاز کرتی ہے، پی پی پی، پی ٹی آئی، پی ایم ایل این اور متحدہ سمیت تمام ملک گیر پارٹیاں شرائییت کی بجائے حاکمانہ مزاج رکھتی ہیں اور ان میں کارنر میٹنگز کا چلن عروج پر ہے۔ جو خود پارٹی کے اراکین میں بددلی پھیلاتا اور عدم اعتماد کی فضاء کا سازگار بناتا ہے۔ اگر الیکشنز کے لئے امیدواروں کا معاملہ ہو تو باقی جماعتیں ٹکٹس بیچتی ہیں جو ان کے نظریاتی نہ ہونے کا بیّن ثبوت ہے جبکہ جماعت کے امیدواران کو الیکشن لڑنے کے لئے قائل کیا جاتا ہے، وہ ذمہ داری کے بار سے سبکدوشی چاہتے ہیں مگر انہیں صلاحیت اور صالحیت کی بناء پر ٹکٹ تھمائے جاتے ہیں۔ پھر، باقی پارٹیوں میں محکمہ احتساب کا وجود ہی نہیں، کوئی اخلاقی ضابطہ ہی نہیں جو غلط لیڈران کو لگام ڈال سکے، الٹا خوشامد کے ڈونگرے خود غرضی اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے برسائے جاتے ہیں۔ جبکہ جماعت میں محکمہ احتساب کا اداریہ امیر جماعت پاکستان پر بھی تنقید برائے اصلاح کا مجاز ہے۔ عوام کے قریب، عوام کا درد اور مسائل سے اور کوئی پارٹی نہیں سمجھتی حالانکہ مقتدر پارٹیاں ہونے کی بناء پر وہی ان کے مسائل حل کرنے کی مجاز ہیں مگر کراچی جیسے وسیع وعریض شہر کا مقدمہ بھی حافظ نعیم اکیلا لڑتا ہے اور بے شک یہ جماعت کا ہی طرہ امتیاز ہے۔ ایسی بے لوث قیادت خال، بلکہ موجود ہی نہیں۔ جو پارٹیاں باہم دست و گریباں ہو اور ان کے کارندوں کا ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے پر دھیان ہو ، یقینا وہ اپنی بھیڑ میں نعیم الرحمان جیسا قائد پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔ پھر جماعت کی صفوں میں ہنگامی حالات میں بھی تلاطم برپا نہیں ہوا کرتا ،الحمد للہ ! مگر مقابل کی پارٹیوں میں تو صفوں کا وجود ہی نہیں۔ ٹکٹوں کے حصول کے لئے بھی قطار بندی کی بجائے دھکم پیل دیکھنے کو ملتی ہے۔

نظریے کی خاطر جتنی خدمات جماعت نے پیش کیں۔ خواہ وہ قلمی صورت میں ہوں یا علمی یا عملی، کوئی اس کی ہمسری تو کیا نصف خدمات بھی پیش نہیں کر سکتا یاد رہے نظریے سے مراد ہم” لا الہٰ الااللہ” کی حکمرانی اور نفاذ مراد لے رہے ہیں۔ کیونکہ خالی خولی قائد اور اقبال کے بیان، ان کی تصویروں اور سیمینارز کے انعقاد سے نظریے کی حقانیت کا حق ادا نہیں ہوتا۔ دوسری نمایاں صفت اس کا مسلک کے تعصب سے بالاتر ہونا ہے۔ تیسری خصوصیت، جو اسے مقابلے کی قومی جماعتوں سے ممتاز کرتی ہے وہ قومیت کے زہر سے پاک ہونا ہے یہ حب الوطن تو ہے لیکن ملی جذبے کے تحت۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے بہت محبت تھی مگر نظریے کی خاطر ہجرت کی ۔ کیونکہ وہ مکہ کے نمائندے نہیں بلکہ اللہ کے نمائندے تھے اور اللہ کے نمائندے کو اپنا پیغام عام کرنا تھا خواہ طائف کی وادیوں سے گزرنا پڑے۔ بلکہ جسے اپنے نظریے سے عشق ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ اسی جماعت کا  تسلسل ہے جو بدر و احد میں جادہ پیما رہی، طائف و تبوک کی گھاٹیوں سے گزری، امام ابو حنیفہ، حنبل، مالک، شافعی جیسے نظریاتی قائدین جسے لئے لئے چلتے رہے، مجد الف ثانی، شاہ ولی اللہ سے ہوتی ہوئی قیادت کی طنابیں امام مودودی کے ہاتھ میں تھما دی گئیں۔ یاد رہے، موروثیت سے یہ روز اول سے پاک ہے۔ فکری وارثین کو البتہ ہر چار سال بعد ارکان جماعت امامت کے لئے چن لیتے ہیں مگر مضبوط شورائیت نظام کے تحت۔ امام کو مطلق العنان حیثیت حاصل نہیں ہوتی۔ تمام امراء نے صحت کو بنیاد بنا کر امارت سے ازخود ہی استعفیٰ دے دیا۔ امام مودودی کی تربیت اس میں کچھ یوں تھی۔

اللہ کی بندگی کے ساتھ دوسری بندگیا ں جمع نہ کرو ہم کسی کو اپنے امیر کی طرف نہیں بلاتے اور نہ کسی خاص شخصیت کی طرف دعوت دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے کارکن اپنے امیر کی اطاعت بھی معروف میں کرتے ہیں، مجہول اور منکر کو اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیتے۔(سید مودودی)۔ لگ بھگ بیالیس ہزار ممبر ملک بھر میں اس کے وارث ہیں جن میں سے سوا لاکھ فعال ہیں یعنی اپنے آپ کو مشن کے لئے ہمہ وقت وقف کیے ہوئے پیں۔ مرد ارکان 30 ہزار جبکہ خواتین ارکان کی تعداد 3 ہزار سے متجاوز ہے۔

دستور اس کا مثالی ہے جو کہ 1957 میں مکمل شکل میں تشکیل پایا، اس کے بعد اگر چہ اس میں ترامیم ہوئی ہیں مگر دستور کا بنیادی ڈھانچہ وہی ہے، خفیہ سر گرمیوں کی قائل نہیں اس کی سرگرمیاں کھلم کھلا ہوتی ہیں، مالیات کا شفاف نظام رکھتی ہے، ملک کے چپے چپے میں رسائی رکھتی ہے۔ احتساب کا مضبوط و مربوط نظام رکھتی ہے، کئی ذیلی تنظیمیں، مثلاً جمیعت عربیہ، اسلامی جمیعت طلبہ، خدمت خلق میں الخدمت، آغوش اس کے قابل قدر شعبہ جات ہیں۔ تعلیمی اداروں کا جال بھی ان کی سربراہی میں چل رہا ہے۔ آفت زدہ علاقے ہوں یا ملت کے مظلوم مسلمانوں کی پکار پر لبیک کہہ کر اخلاقی اور مالی امداد کا موقع ہو یہ ہر اول دستہ مجاہدین ہوتے ہیں اور خوشنودی الٰہی کی خاطر دیانتداری سے فرائض انجام دیتے ہیں۔

اللہ اس جماعت کے دستور، نصب العین، لائحہ عمل کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔