نظریہءپاکستان اور نظریاتی جماعت

26 اگست 1941ء۔ وه اہم تاریخی دن ہے جب ہندوستان کے مختلف گوشوں سے محلہ اسلامیہ پارک لاہور میں ایک چھوٹی سی کوٹھی کے ایک کمرے میں 75 نفوسِ قدسی اکٹھا ہوئے اور 75 روپے 74 پیسے کے قلیل سرمایہ سے ایک دینی تحریک کی بنیاد ڈالی۔ جسے دنیا آج جماعت اسلامی کے نام سے جانتی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس جماعت کا مقصدِ وجود کیا تھا؟ اگر نہیں جانتے تو آئیے بانئ جماعت سے پوچھ لیتے ہیں۔

مفکر اسلام سیدابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب”جماعت اسلامی کا مقصد ، تاریخ اور لائحہ عمل” میں لکھتے ہیں” جماعت جس مقصد کے لئے قائم کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کے پورے نظام کو اس کے تمام شعبوں (فکرو نظر، عقیدہ و خیال، مذہب و اخلاق، سیرت و کردار، تعلیم و تربیت، تہذیب و ثقافت، تمدن و معاشرت، معیشت و سیاست، قانون و عدالت، صلح و جنگ اور بین الاقوامی تعلقات) سمیت خدا کی بندگی اور انبیاء کی ہدایت پر قائم کیا جائے۔ جس چیز کو ہم قائم کرنا چاہتے ہیں اسکا جامع نام قرآن کی اصطلاح میں “دین حق” ہے۔ یعنی وہ نظام زندگی (دین) جو حق (پیغمبروں کی لائی ہوئی ہدایت کے مطابق اللہ کی بندگی و اطاعت) پر مبنی ہو۔ اس مقصد کے حصول کی جدوجہد کا نام ہم نے اقامت دین، شہادت حق اور تحریک اسلامی رکھا ہے۔ ہم جب اقامتِ دین کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ہمارا مطلب محض مسجدوں میں دین قائم کرنا یا چند مذہبی عقائد اور اخلاقی احکام کی تبلیغ کردینا نہیں ہوتا، بلکہ اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ گھر اور مسجد، کالج اور منڈی، تھانے اور چھاؤنی، ہائی کورٹ اور پارلیمنٹ، ایوانِ وزارت اور سفارت خانے، سب پر اُس ایک خدا کا دین قائم کیا جائے، جس کو ہم نے رب اور معبود تسلیم کر لیا ہے اور سب کا انتظام اُسی ایک رسول کی تعلیم کے مطابق چلایا جائے، جسے ہم اپنا ہادی مان چکے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہماری ہر چیز کو مسلمان ہونا چاہئے۔ اپنی زندگی کے کسی پہلو کو بھی ہم شیطان کے حوالے نہیں کر سکتے۔ ہمارے ہاں سب کچھ خدا کا ہے شیطان کا کوئی حصہ نہیں۔

اس عظیم نصب العین نے مجھے مقناطیس کی طرح جماعت اسلامی میں کھینچ لیا۔ اس مقصد زندگی سے اختلاف کی کوئی وجہ میرے پاس موجود نہیں تھی۔ قرآن وسنت کی تعلیم کے یقینا اور بھی ذرائع میسر آئے۔ مثلاً والدین اور اساتذہ۔ مدارس سے بھی تعلق رہا۔ لیکن محسوس ہوا سبھی محسن حالات کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان حیات میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئی تو گویا اجتماعیت سے جڑ گئی۔ زندگی بامقصد ہو گئی۔ اعلی تعلیم یافتہ قیادت ملی۔ زندگی کے ہرموڑ پر رہنمائی کے لئے بلند پایہ علماء کا لٹریچر میسر ہے ۔ ٹیلی ویژن کو وقت دینے کی ضرورت نہیں۔ ہمہ وقت حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنے کا ایک ذریعہ ہاتھ آگیا۔ دکھ درد میں شریک ہونے والے، دعائیں کرنے والے ساتھی مل گئے۔

میرا دل چاہتا ہے کہ جماعت اسلامی کے طریق کار سے آپ کو آگاہ کروں کہ جو میں جان چکی آپ اس سے محروم کیوں رہیں؟ تو پھر جان لیجیۓ کہ جماعت کا طریق کار منظم اور باضابطہ ہے۔ جو لوگ اس میں شریک ہوتے ہیں انکی تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان کے لئے تربیت گاہیں قائم کی جاتی ہیں اور انہیں اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کروایا جاتا ہے۔ یہ تربیت یافتہ لوگ جب تبلیغ کی غرض سے معاشرے میں جاتے ہیں، تو لوگ اُن پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں لیکن وہ کسی بات کا جواب دیئے بغیر اپنا مشن جاری رکھتے ہیں۔ اس طرح اُنکے نفس تزکیہ حاصل کرتے ہیں۔ جماعت کا سارا نظام جمہوری ہے۔ ناظمین سے لیکر امیر جماعت تک سب کا انتخاب ارکان کے ووٹوں کے ذریعے ہوتا ہے ۔ ضلع کی سطح سے لیکر مرکز تک تمام فیصلے باہم مشورے سے کئے جاتے ہیں۔ مجالس شوری کا انتخاب بھی ارکان اپنے ووٹوں کے ذریعے کرتے ہیں۔ جماعت کے اندر مختلف شعبے موجود ہیں۔ مثلاً شعبہ تعلیم، شعبہ آئی ٹی، شعبہ حریم ادب، شعبہ نشرو اشاعت، الخدمت فاؤنڈیشن۔ جماعت کا اپنا میڈیا سیل ہے جو فیس بک اور یوٹیوب پر موجود ہے۔ اسکے ذریعے اشاعت دین اور فریضہ اقامت دین کا کام منظم طریقے سے ہو رہا ہے۔ اسی طرح الخدمت فاونڈیشن ہر ناگہانی آفت میں مظلومین کی مدد کیلئے نہ صرف وطن عزیز کے ہر گوشے میں پہنچتی ہے، بلکہ بیرون ملک بھی خدمت خلق میں مصروف نظر آتی ہے۔ کہیے پاکستان میں ہے کوئی ایسی جدید جمہوری نظام کی حامل جماعت؟۔

آپ نے جماعت اسلامی کو قریب سے نہیں جانا۔ اسکے مقصد عظیم سے آگاہ نہیں ہوئے۔ اسلئے آپ اس سے دور ہیں۔ میں جماعت کے یوم تاسیس کے موقع پر آپکو دعوت دیتی ہوں کہ اس جماعت کے قریب آئیں، اپنا مقصد حیات پہچانیں اور اسکے حصول کی جدوجہد میں شامل ہو جائیں۔ رہنمائی کے لئے عرض ہے کہ کسی رکن جماعت یا جماعت کے کسی مرکز سے مولانا مودودی کا تحریر کردہ کتابچہ “شہادت حق” یا “ہدایات” حاصل کریں اور اسکا مطالعہ کریں. ویسے مولانا کا بہت سا لٹریچر نیٹ پر بھی موجود ہے۔ جب چاہیں استفادہ کر سکتے ہیں۔ ان اشعار کے ساتھ اجازت چاہوں گی۔

حیران و پریشان ہے بہارِ گلشن

خطرے میں ہے اب عزّ و وقار گلشن

نادم ہے بہت رنگ چمن بھی جب سے

گلشن پر مسلط ہے غبارِ گلشن