کیا ہم آزاد ہیں؟

کیا ہم آزاد ہیں ؟ یہ سوال جب بھی سامنے آتا ہے تو زنگ آلود زہن کے آدھے پونے کھلے دریچوں سے باہر کی جانب سے آزاد ہلکی ہوا آنے لگتی ہے۔ جیسے آزادی کی ہوا اس زنگ کو صاف کرنا چاہ رہی ہو اور زہن خود ہی زنگ اتارنے پہ آمادہ نا ہو گویا زہن اس زنگ میں لپٹا غلام ہے جس پہ آزادی کی ہوا کا کچھ اثر نا ہو۔ ایسے میں صرف ایک ہی جواب سمجھ میں آتا ہے۔

ہم توپوں، بندوقوں کی گھن گرج سے چھلنی ہونے سے تو کافی حد تک آزاد ہیں مگر ہماری ذہنیت پر ابھی بھی غلامی کی سوئیاں چمٹی ہوئیں ہیں، ہم اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے تو آزاد ہیں مگر ہمارے پیروں میں ابھی بھی غلامی کی بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں اور ان بیڑیوں میں خون آلود پیر ہمارے اپنے ہی خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ ہم نظریہ اسلام کے سبب آزاد تو ہو گئے ہیں مگر ہمارے زہن میں ابھی بھی مغربی نظریہ افکار کا زنگ لگا ہوا ہے۔

ہم نے انگریزوں سے آزادی تو حاصل کر لی ہے مگر انگریزی سے ابھی بھی رہائی نا پا سکے۔ ہم زہنی غلام بن کر خود کو کامیاب تصور کرتے ہیں اس لیے آزاد ہو کر بھی ہم غلام ہیں۔ ہم آزادی کا دن مناتے ہیں لفظ آزادی کے مقاصد، نظریات سے ناآشنا ہو کر۔

کسی کا ایک خوبصورت جملہ:

پاکستان ایک مقصد تھا، مقصد پاکستان نہیں تھا۔

پاکستان تو آزاد کر لیا مگر جس مقصد کی خاطر آزاد ہوا وہ مقصد ہم بھول گئے، وہ نظریہ ہم بھول گئے۔ ہم آزاد ہو کر بھی آزاد نہیں ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا !

آپ آزاد ہیں آزاد رہیں ! انہوں نے ہمیں آزادی کی نوید “آپ آزاد ہیں” کہہ کر سنانے کے ساتھ ساتھ ایک تلقین بھی کی تھی “آپ آزاد رہیں” ہم نے نوید تو سن لی مگر ان کی تلقین پر عمل پیرا نہیں ہو سکے۔

ہم آزاد ہو کر بھی آزاد نہیں ہیں، ہم آزاد نہیں ہیں۔