میں بولوں نہ بولوں

 

کافی دنوں کے بعد گھر سے نکلنا ہوا شہر کراچی کی حالت دیکھ کر خصوصاً سڑکیں دیکھ کر دلی افسوس نہیں بلکہ تکلیف ہوئی۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اوپر سے اُبلتے بدبو دار گٹر جو ناقابل برداشت تھے مجھے اپنی ایک عزیزہ کے گھر جانا تھا جیسے تیسے ان کی علاقے میں تو پہنچ گئی، جہاں 120 اور 240گز اراضی پر مکانات تعمیر کیے گیے ہیں لیکن اندر سے سوسائٹی کی سڑکوں کی حالت اور سیورج لائنوں کی حالت ابتر، خیر عزیزہ کے گھر کی گلی تک تو پہنچ گئے لیکن ! انکے گھر کے دروازے تک پہنچنا جوئے شیر لانے کے برابر تھا فون پر بات ہوئی عزیزہ نے بتایا کہ بارشوں کی وجہ سے سرکار کی ناقص کارکردگی سامنے آگئی ہے جس کو عوام الناس بھگت رہے ہیں خیر جی وہیں سے پلٹے کہ کس طرح گندگی سے اپنے پیروں بلکہ ٹانگوں کو اس غلاظت میں ڈبونے سے بچائیں۔

یہ کسی ہارر(خوفناک) فلم کا منظر نہیں بلکہ حقیقت بیان کر رہی ہوں خیر اب تو پورا شہر اس صورتحال سے سے دوچار ہے. سب ایسے مناظر کے عادی ہو چکے ہیں اور صبر آزما نظاروں پر حسرت بھری نظروں سے سرکار کی توجہ کے طالب ہیں، کراچی جو پاکستان کا دل ہے تمام شہروں اور ضلعوں کے لوگوں کی امیدوں کا مرکز ہے اس عظیم الشان تجارتی مرکز کو اس طرح نظر انداز کرنا سرکار کی بہت بڑی کوتاہی ہے بلکہ نا اہلی ہے اس نا انصافی پر کراچی کا ہر فرد افسردہ اور ملول ہے۔

آخر اس صورتحال پر کس کو دکھ سنایا جائے دس پندرہ سالوں سے کراچی جن پارٹیوں کے حوالے کیا گیا وہ صرف ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہیں حالانکہ عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ کہاں کہاں اور کس کس نے اپنی تجوریاں بھریں۔

انہیں خوف خدا نہیں کہ ایک دن اللہ کے سامنے جواب دہ ہونا ہے بس اب تو یہی دعا ہے کہ رب العالمین کراچی کو ایسے ایماندار ہاتھوں میں سونپا جائے ایماندار ہوں اور خوف خدا سے ان کے دل لبریز ہو ں تاکہ یہ کھنڈر شہر پھر سے جی اُٹھے اور یہاں کی رونقیں بحال ہوسکیں۔ آمين ثم آمين یا رب العالمین۔