چاند میری زمیں پھول میرا وطن‎‎

بچپن میں جب یہ قومی نغمہ سنتے تو دل بڑا سرشار ہوتا اور لگتا کہ میری یہ سوہنی دھرتی واقعی چاند کی مانند خوبصورت ہے، لہراتے باغات میرے وطن کو چار چاند لگا رہے ہوتے، میرا وطن بہت سر سبز و شاداب ہے۔پاکستان اسٹیڈیز کی کتابوں میں ہمیشہ پڑھا کہ ہمارا ملک پیچھتر فیصد انحصار زراعت پر ہے اور باقی پچیس فیصد کا صنعتوں پرانحصار ہے۔

۔پانچ دریاؤں کی یہ سر زمین اپنے آب و تاب کے ساتھ دنیا کے نقشے میں انیس سو سینتالیس میں معرضِ وجود میں آئی ، پہلے تو دشمن کی نظروں میں کھٹکتی تھی اور اب اپنے ہی اس کو مٹانے کے درپے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ ایک آزاد ملک پانے کے لیے کتنی قربانیاں دی گئیں اور خون کی ندیاں بہائی گئیں۔

آپ کو تو تھالی میں رکھ کر پیش کر دیا گیا اس پھول جیسی زمیں کو کیسے مرجھا دیا گیا کسی نے دھرتی کو ماں نہیں سمجھا صرف لوٹنے کا ہی سوچا ۔اگر ہم اپنے ملک کے ساتھ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے بتائے ہوئے تین اصول پر چلتے ایمان، اتحاد اور تنظیم تو پاکستان ایک مضبوط مملکت ہوتا پر صد افسوس کہ گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے جتنا نقصان اپنے کر رہیں اتنا تو دشمن بھی نہیں کر رہے۔

آپ لوگوں کے پاس ضمیر نامی کوئی چیز ہے کہ نہیں راتوں کو نیند آجاتی ارے ضمیر فروشوں تم کتنا ہی زور لگا لو لیکن اسلام اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنے والے ملک کو کبھی ختم نہ کر سکو گے، بھولی عوام اپنے وطن پر آنچ آنے نہیں دے گی۔ کیونکہ چاند میری زمیں پھول میرا وطن