آزادی کی حنوط شدہ لاش

ہم اللہ رب العزت کا جتنا شکر ادا کریں وہ کم ہوگا کہ اس نے ہمیں رہنے کیلئے دنیا جہان کی نعمتوں سے لبریز ایک خطہ زمین ہمارے آباءو اجداد کی قربانیوں کی بدولت عطاء فرمایا۔ اس خطہ کی آزادی کی ضرورت کیوں پیش آئی یہ ایک الگ داستان ہے، اللہ تعالی نے موقع دیا تو پھر کبھی تفصیل سے لکھیں گے۔ ہم ہندوستان میں ایسے دو پاٹوں میں پس رہے تھے جہاں ناصرف مذہبی بلکہ نظریاتی مفادات کو بھی بری طرح سے مسخ کیا جارہاتھا ۔ مسلمانوں سے انکی سال ہا سال سے ہندوستان پر حکمرانی کا بدلہ لیا جارہا تھا اور ایسا بدلہ لیا گیا کہ ہم حکمرانوں کےلئے غلام بن کر رہ گئے۔ ہم نے احتیاطوں کے، مصلحتوں کے اتنے طوق اپنی گردنوں میں ڈال لئے کے گردن کو اٹھنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا اور ہماری سوچ بھی محکوم ہوکر رہ گئی ۔

پاکستان کو ہندوستان سے نکلے (نئی نسل کیلئے لفظ نکلے کی وضاحت کرتے چلتے ہیں کیونکہ مسلمان درحقیقت برصغیر کے حکمران تھے لیکن سازشوں کے ایسے جال بنے گئے کہ جس میں بری طرح پھنس کر اقتدار و اختیار ہاتھ سے ریت کی مانند جاتے دیکھتے رہے اور سوائے اسکے کے نئے سرے سے آزادی کی تحریک چلائی جائے کچھ نہیں کر سکتے تھے)یا آزاد ہوئے پچھتر سال ہونے کو آگئے ہیں اور پاکستانی قوم اس کا جشن ِ خاص(ڈائمنڈ جوبلی) منانے کی تیاریوں میں مشغول ہے، پاکستانی قوم ہر سال بھرپور طریقے سے آزادی کا جشن مناتی ہے اور ہر سال پچھلے سال سے زیادہ رقم خرچ کرنے کا ریکارڈ بھی قائم کرتی ہے۔ بھوک و افلاس کی ماری یہ قوم پاکستان کی آزادی کا جشن منانے سے کبھی بھی نہیں چوکی، یہ اپنے دلوں میں جلتی ہوئی آزادی کی شمع کو کسی حال میں بجھنے نہیں دینا چاہتی بھلے انکی زندگیوں کے چراغ ہی کیوں نا گل ہوجائیں۔ آج تک زندگی کی بنیادی ضروریات ہی میسر نہیں آسکیں ۔ قوم کی وطن عزیز پاکستان سے اس والہانہ اور اندھی محبت کی پیش نظردشمن نے بڑی خاموشی سے اور منظم طریقے سے ملک کو نقصان پہنچایا ہے ۔ ہم پاکستانیوں کو ایک عرصے تک تو علیحدگی کی خوشی مناتے گزر گئی اور خوشی منانے میں اتنے مگن ہوئے کہ ایک مخصوص ٹولے نے تمام وسائل پر اغیار کی مدد یا پھر سرپرستی کی بدولت قبضہ کرلیا۔ لوگ جشن ِ آزادی مناتے رہے اور وطن عزیز سے محبت کا ثبوت دیتے رہے اور یہ سمجھتے رہے کے پاکستان کی آزادی سے انہیں ایک آزاد مملکت ایک آزاد خطہ زمین مل گیا ہے۔ اس بات کا احاطہ کرنا ذرا مشکل ہے کہ یہ مخصوص ٹولہ حقیقت میں کس کا ساتھ دینے والا ہے اور کس کو آنکھیں دیکھانے والا ہے۔ قوم کی معصومیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ انکی حب الوطنی کو سیاسی بازیگروں نے اپنے سے منسوب کرالیا اور اپنی حمایت کرنے والوں کو حب الوطنی کے اسناد دئیے جانے لگے۔ مختلف مکتبہ فکر کے لوگ پاکستان کی نومولود انتظامیہ کی کشتی میں سوار ہوگئے جہاں اس بات کا تعین کرنا ناممکن ہوگیا کہ کو ن پاکستان کا حامی ہے اور کون پاکستان کا مخالف ہے، اسلئے اس بحث نے بھی سر اٹھایا کہ پاکستان میں کون سا حکومتی نظام رائج کیا جائے گا جس پر بانی پاکستان سے جب پوچھا گیا کہ پاکستان کس نظام حکومت یا طرز حکومت کی پیروی کرے گا تو بانی پاکستان محمد علی جناح ٰ;231;نے واشگاف الفاظ میں بتایا کہ جو نظام چودہ سو سال قبل دنیا کے لئے نور ہدایت بن کر آسمان سے اتارا گیا اور جس کا نفاذ حضرت محمد ﷺنے ریاست مدینہ میں کیا اور وہ نظام آدھی سے زیادہ دنیا پر نافذ رہا۔ یہ وہ نظام تھا کہ جس نے دنیا کو منظم کیا اور فلاح کی صحیح تشریح کر کے عملی طور پر دیکھائی ۔ لیکن اغیار کیلئے پاکستان مخالفین کیلئے سب سے بڑھ کر اسلام دشمنوں کیلئے تو یہ بات کبھی بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی ہے۔ تو یہ بحث تاحال پچھتر سال گزر جانے کے بعد بھی جاری ہے۔

پاکستان آزاد ہوگیا اور پاکستان کیلئے جدوجہد کرنے والوں کو رہنے کیلئے ایک الگ خطہ زمین فراہم کردیا گیا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو آزاد کردیا گیا اور آزادی کو آزاد سرزمین پر پہنچتے ہی وہاں پہلے سے موجود کچھ بیرونی اہلکاروں نے پھٹے پرانے اور ٹوٹے پھوٹے لوگوں سے آزادی یہ کہہ کر لے لی گئی کہ پہلے ذرا اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاؤ اپنے آپ کو سنبھال لو پھر یہ آزادی لے لینا گویا آزادی کو قید ہوگئی اوراسے مصر میں رکھی گئی ممی کی طرح حنوط کرکے رکھ دیا گیا، وقت اور حالات اجازت نہیں دے رہے تھے ورنہ باقاعدہ طور پر اس آزادی کا گلا اسی وقت دبا دیا جاتا، ویسے ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کی طاقت کسی میں نہیں تھی ورنہ ایسا ہی کرتے۔ آستین کے سانپوں کا ڈسا ایسے مرتا ہے کہ بس زندوں کی فہرست سے نکال دیا جاتا ہے ۔ پھٹے پرانے اور لٹے پٹے لوگوں کو ان کی زندگی کی بقاء کی جنگ میں دھکیل دیا گیا اور وہ بیچاروں کی کیفیت والے شش و پنج میں مبتلاء آزادی کو بھول کر اپنی اور اپنے لوگوں کی زندگی کی بقاء کی جنگ میں کود پڑے۔ یہی ان گھس بیٹھیوں کی سب سے پہلی فتح تھی پھر کیا تھا یہ لوگ جیت کا جشن مناتے رہے اور ہم پاکستانی اپنی زندگیوں کی بقاء کی جنگ میں ایسے کودے کہ پھر پلٹ کا کچھ دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا ۔ ہم پر مسلط ہونے والوں نے ہماری مجبوریوں سے خوب فائدہ اٹھایا اور ہماری پریشانیوں میں کمی کرنے کی بجائے ہماری کوئی داد رسی کرنے کی بجائے انہوں نے انہیں پروان چڑھانے کا بیڑہ اٹھا لیا یعنی مشکلات میں اضافہ کرتے چلے گئے، ہماری زندگیوں کو بے نور کرتے گئے اور دنیا کی روشنیوں سے اپنی زندگیاں منور کرتے چلے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی حکومت، حکومتی امور چلانے کیلئے قرضے مانگتی رہتی ہے لیکن عوام کا ایک خاص طبقہ اپنی بھرپور زندگیاں گزارتا چلا جا رہا ہے ۔

آزادی کی حنوط شدہ لاش اسی دن سے اپنے حقیقی ورثہ کی منتظر ہے(جنہیں زندگی کی بقاء کی جنگ میں دھکیل دیا گیا تھا) وہ راہ دیکھ رہی ہے کہ کب اسے آزاد کرایا جائے تاکہ وہ ہمیں آزاد آب و ہوا کا احساس دلاسکے، ہمارے حقیقی حقوق تک رسائی دلا سکے، انصاف دلا سکے، ہمارے دئیے گئے محصولات کا حساب دلا سکے، ہمارے علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرا سکے، ہمیں پاکستان کی حقیقی آزادی کا سجدہ شکر بجا لانے کی توفیق دلا سکے۔ خدارا ذرا سوچیں تو صحیح کہ ہم کب آزاد ہیں ہم تو غلاموں کے غلام بن کر اپنا اپنا مقرر شدہ وقت اس پاک سرزمین پر بوجھ بن کر گزار رہے ہیں۔ ہماری آزادی کو عبرت بنانے کی کوشش کی گئی اور اگر سمجھا جائے تو اس میں کافی حد تک کامیابی بھی ہوگئی ۔ ہم پچھتر سال سے آزادی کی لاش اپنے کاندھوں پر لئے گھوم رہے ہیں۔ دنیا کے ٹھیکےدار دنیا کو پر امن بنانے کی باتیں کرتے ہیں اور حقیقت میں ترقی کی اصل ضامن امن و امان ہی ہے۔ لیکن معلوم نہیں کیوں دنیا کے ان منصفوں کو کشمیر اور فلسطین میں ہونے والے انسانیت سوز مظالم دیکھائی نہیں دیتے ۔ یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ فلسطین اور کشمیر میں چلنے والی آزادی کی تحریکیں واضح ہیں انکا دشمن انکے سامنے ہے افسوس ناک خبر یہ ہے کہ ہمارے دشمن نے ہمیں ایک الگ زمین دے کر ہم میں سے اپنے لوگ چن کر ہمیں انکی غلامی میں دے دیا ۔

ہمارے حکمران جو گاڑیوں کے غول میں گھومتے پھرتے ہیں جن تک رسائی عوام کیلئے ممکن ہی نہیں ہوتی، ہم کہاں آزاد ہیں۔ آج جب آگہی کا سورج طلوع ہوا ہے جب یہ سمجھ میں آنا شروع ہوا ہے کہ کوئی تو ہے جو ہماری محنت کا صلہ ہم سے پہلے ہی لئے جارہا ہے۔ یہ کیسی آزادی ہے کہ کبھی صحافت آزادی کا نعرہ لگاتی سڑکوں پر روندی جاتی ہے، کبھی سیاسی جماعتوں کو آزادی کی جدوجہد کیلئے جیلوں میں دھکیل دیا جاتا ہے، کبھی اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ملک اسلام کیلئے قید خانہ بنا دیا جاتا ہے، کبھی حقوق نسواں والے ادھم مچا تے دکھائی دیتے ہیں، کبھی صوبوں تو کبھی زبانوں اور کبھی علاقوں کی آزادی کی جدوجہدہوتی دیکھائی دیتی ہے، کبھی قانون اپنی بیچارگی کا ماتم کرتا دکھائی دیتا ہے تو کبھی عوام کی جان و مال کے رکھوالے اپنی آزادی کے درپے ہوتے ہیں۔ تدریسی عمل اپنے نفاذ کیلئے تاحال تگ و دو میں مصروف عمل ہے ۔ آزادی کو تو حنوط شدہ لاش بنا کر رکھ دیا گیا تھا۔ آئیں اس حنوط شدہ لاش کے حقیقی وارث ہونے کا ثبوت دیں اورسب سے پہلے اپنی صفوں میں سے کالی بھیڑوں کو نکالیں۔ سوائے اسکے اور کوئی حل نہیں کے اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت کا مکمل یقین رکھتے ہوئے انکا نظام قائم کیا جائے اور ہر قسم کے غم و خوف سے پاکستان اور پاکستانیوں کو آزاد کیا جائے ۔ آخر ہم کب تک اس گھٹن زدہ ماحول میں سانس لیتے رہیں گے۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔