یوم آزادیِ پاکستان اور ہمارے نوجوان‎‎

یوم آزادیِ پاکستان ایک بار پھر آیا ہی چاہتا ہے۔ گویا پون صدی بیت چکی ہمارے نوجوان کو آزاد ہوئے۔ نوجوانوں کی یہ تیسری کھیپ بالغ ہو چکی ہے جو خوش آئند ہے لیکن ملت کے درد سے نا آشنا، کھیلوں کے دلدادہ، قومی مسائل کو غیر سنجیدگی سے لینے والے نوجوان اور تو اور سہل پسند نوجوان۔ بظاہر جن سے کوئی امید بر نہیں آتی۔ مگر۔ یکایک، اقبال کی دھیمی سی سرگوشی دل کے نہاں خانے پر یوں دستک دے کر امید کو جگا دیتی ہے۔

نومید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ

کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی

یقیناً قبل از آزادی ہندوستان کے مسلمان بھی کم کوش تھے مگر مسلمانوں کی بیدار مغز تحریکوں، اقبال کی شاعری،اصلاح کی طلب، غلامی سے نجات کی خواہش نے ان نوجوانوں کا ذوق آزادی بیدار کر دیا۔ پھر انہوں نے خلافت کی تحریکوں میں بھی حصہ لیا اور جلسے جلوسوں میں بھی جان ڈال دی۔ گفتار کے غازی کردار کے غازی بن گئے۔باتوں سے من موہنے کی بجائے اولو العزم کردار بن کر ابھرے۔ اور پھر اس بیداری کی سب سے بڑا ثبوت پیارا “پاکستان” معرض وجود میں آیا۔ جس میں آج کا کم کوش نوجوان لہوولعب میں ڈوبا ہوا ہے۔ مگر نوجوان کو کوسوں تو اقبال کی نصیحت بھری آواز ایک بار پھر سنائی دیتی ہے۔

نہیں مایوس اقبال اپنی کشت ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔

اقبال ایسا دور اندیش فلاسفر جب مٹی میں زرخیزی کو پہچان رہا ہے تو پھر مٹی کو نمی فراہم کرنے میں سستی کیسی ! اگرچہ ہمارا نوجوان فارغ البالی کا شکار ہو چکا ہے، تن آسانی اس کے روؤیں روؤیں پر قابض ہو چکی ہے، علم و آگہی کی بجائے معلومات کا خزانہ بن چکا ہے اور غیر کی نقالی نے اس کے رہے سہے قویٰ کو بھی بے کار کر رکھا ہے مگر ، ٹھہریے۔ غیر کی نقالی میں یہ تیسری کھیپ تنہا قصوروار نہیں۔ یہ تو وہ بیماری ہے جو پہلی اور دوسری کھیپ کے نوجوانوں سے ان میں جرثومے کے ذریعے پھیلی ہے، گویا موروثی بیماری ہے یہ۔ لہذا اس کا سد باب بھی حکمت، مواعظہ حسنہ اور جدال بالاحسن کے ذریعے کرنا ہو گا ، تدریج کے اصولوں کے مطابق چلنا ہو گا۔ اقبال کیا خوبصورت درس دے گئے اصلاح خواہوں کو ۔

نہ ہو نومید ، نومیدی زوال علم و عرفاں ہے

امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں

یوم آزادی نوجوانوں سے بالخصوص کچھ طلب و تقاضے کرتا ہے جسے پورا کرنا ہمارے نوجوان کی ترجیح اول ہونا چاہیئے۔ نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد نے اپنا تن من دھن آزادی کی بقاء اور اسلام کی سربلندی میں لٹا دیا اور ملک کی سلامتی میں اپنا کردار بحسن وخوبی نبھا دیا، قائد اعظم ہوں یا لیاقت علی خاں۔ قاضی حسین احمد ہوں یا منور حسن۔ حافظ سعید ہوں یا حکیم سعید، ڈاکٹر خواجہ جاوید ہوں، ایم ایم عالم، غازی مقبول ہوں یا ڈاکٹر عبد القدیر خان، نشان حیدر پانے والے نوجوان ہوں یا وطن پر جان نچھاور کر دینے والے 65ء اور 71ء کے سویلین، سب کے سب نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہیں اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ ابھار کر نوجوانوں کو ملت کے لئے نفع بخش بنانے میں اہم کردار رکھتے ہیں۔

نوجوان کسی بھی قوم کے معمار ہوا کرتے ہیں۔ ان کی تربیت قوم پر فرض ہے۔ اگر آزادی کا جشن بے ہنگم طریقوں سے مناتے ہمارے نوجوانوں کو قرارداد پاکستان اور نظریہ پاکستان ہی معلوم نہ ہو گا، نظریہ اسلام کی شدبد ہی انہیں نہ ہو گی تو ہمارے تعلیمی اداروں کے لئے یہ لمحہ فکریہ بھی ہے اور لمحہ عمل بھی۔ بدقسمتی سے ہم نے نوجوانوں کو ایسا ماحول دیا ہے کہ وہ کرکٹ کے کھلاڑیوں کی پہچان تو خوب رکھتے ہیں، ٹیسٹ، فائنل، ٹی ٹوئنٹی کا شیڈول ان کے پاس محفوظ نہ ہو، یہ نا ممکن ہے مگر تحریک پاکستان کے اہم رہنماؤں، آئین پاکستان کے لئے انتھک کوششیں کرنے والوں اور ملک کو اسلامی جمہوریہ بنانے کے لئے جانیں کھپا دینے والوں کی بابت کچھ معلوم ہی نہیں۔ در حقیقت ہم نے اپنے نوجوانوں کو یوم آزادی کے بارے میں صحیح شعور ہی منتقل نہیں کیا۔ اگر یوم آزادی کے تقاضوں سے ہمارے نوجوان آگہی رکھتے ہوتے تو جشن منانے کا انداز بے ہنگم نہ ہوتا۔

یقیناً ضرورت ہے کہ نوجوانوں کو حضرت علی کا عمل یاد دلایا جائے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر مکہ فتح کرتے ہی حرم کعبہ کی فضاء کو بتوں سے پاک کر دیا۔ ہاں، آزادی کی خوشی ان کو بھی تھی مگر آزادی کی یہ خوشی در حقیقت نصب العین کی تکمیل کی خوشی تھی، اسلام کو آزاد دیکھنے کی خوشی تھی، شعائر اللہ کی بے خوف ادائیگی کی خوشی تھی۔ اللہ کے گھر کو نجاست سے پاک کر دینے کی خوشی تھی۔ اسلام کا بول بالا ہو جانے کی خوشی تھی۔

یوم آزادی ان شاءاللہ آتا رہے گا اور ان شاءاللہ ہمارا نوجوان اتحاد، تنظیم، یقین محکم کے فلسفے کو گہرائی میں سمجھ کر یوم آزادی منائے گا۔ عمل پیہم اور محبت فاتح عالم کے ذریعے یوم آزادی کا سر فخر سے بلند کرے گا یہاں تک کہ مستقبل کے مؤرخ کو لکھنا پڑے گا کہ پاکستان کے نوجوان نے نظریہ پاکستان اور نظریہ اسلام کی سربلندی کی خاطر تن من دھن لٹا دیا مگر نظریے پر آنچ نہ آنے دی۔ اسے غیروں کی نقالی کی بجائے اپنی خودی پر ناز تھا، اس کی خودی اسے غیر کے آگے کشکول پھیلانے سے باز رکھتی تھی، قصر سلطانی کے گنبد اس کا حاصل حیات نہ تھے بلکہ وہ پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرنے والا شاہین تھا جسے سردو گرم حالات مایوس نہیں کرتے تھے جو اپنے ملک کے نظریاتی پہلو پر کوئی سمجھوتہ نہ کرتا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ملت کا پاسباں تھا اور وہ یوم آزادی منانے سے قبل معیشت، تعلیم، معاشرت، اذہان اور فکر کی آزادی اور اسے نظریاتی بنانے کی فکر کرتا تھا۔ جب تک نوجوان نظریے کو مضبوط بازوؤں کا سہارا نہیں دیں گے، امید بہار کی توقع عبث ہے اور آزادی منانا محض کھلنڈرا پن اور حقیقی مسائل سے آنکھیں چرانا ہے۔ اللہ ہمارے نوجوانوں کو آزادی کے دن کے تقاضوں پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔