سبزہلالی پرچم اورگولڈ میڈل

بھارتی ترنگے کے مقابلے میں بلند پاکستانی سبز ہلالی پرچم دیکھ کر میرا دل فخر سے جھوم اٹھا، میری روح فخر شرشار ہوکر فضا کے چکر کاٹنے لگی، مجھے ہر طرف سبز پرچموں کی بہار نظر آرہی تھی۔ پاکستانی قومی ترانہ بج رہا تھا اور ساری دنیا پاکستان کےپرچم اور اس کے سامنے عقیدت کا بت بنے اس نوجوان کو دیکھ رہی تھی جس کی عمر ابھی صرف 24 سال ہے۔ جس کا والد اس بات پر ناراض ہوا کہ ابھی تک اس نے کانسی کا تمغہ کیوں جیتا، گولڈ میڈل کیوں نہیں لیا۔ پھر نوح دستگیر بٹ نے پاکستان کو کامن ویلتھ گیمز میں پہلا گولڈ میڈل دلوا دیا۔ یہ کامن ویلتھ گیمز کی تاریخ میں دوسرا موقع ہے کہ کسی پاکستانی ویٹ لفٹر نے طلائی تمغہ جیتا ہے۔ کامن ویلتھ گیمز کی تاریخ میں 16 سال بعد یہ واقعہ دوسری بار ہوا ہے، جس میں کسی پاکستانی ویٹ لفٹر نے طلائی تمغہ جیتا ہے۔ اس سے قبل 2006 میں شجاع الدین ملک نے میلبرن میں ہونے والے مقابلوں میں 85 کلوگرام وزن کے مقابلے میں یہ اعزاز حاصل کیا تھا۔

نوح دستگیر کا تعلق پہلوانوں کے شہر گوجرانولہ سے ہے، وہی گوجرانوالہ جو پہلوانی، کبڈی، ویٹ لفٹنگ اور چڑے کھانے کے لیے مشہور ہے۔ بچپن سے ویٹ لفٹنگ اس کا شوق ہے، اس نے اپنے والدہ کو ہمیشہ سبز پرچم کو بلند کرنے کے جذبے سے شرشار پایا، نوح دستگیر بٹ کے والد غلام دستگیر بٹ پانچ مرتبہ ساؤتھ ایشین گیمز گولڈ میڈلسٹ اور ریکارڈ ہولڈر ہیں جنھوں نے اٹھارہ مرتبہ قومی چیمپئن بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ اب ان کی پوری توجہ اپنے بیٹوں پر مرکوز ہے۔ وہ انہیں قومی چیمپئین بنانا چاہتے ہیں- نوح کے چھوٹے بھائی حنظلہ دستگیر بٹ بھی پاکستان کے قومی جونیئر چیمپیئن رہ چکے ہیں، پاکستان کا نام روشن کرنے والانوح دستگیر مجھے اس لیے بھی پسند ہے کہ اس نے انڈیا کے گردیپ سنگھ کو اس مقابلے میں پچھاڑ دیا ہے، اسے چت کرکے رکھ دیا ہے، انھیں اپنے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا، اور اسے تیسری پوزیشن پر گذارا کرنا پڑا۔ یوم آزادی کے اس جشن میں اس سے بڑا انعام کیا ہوسکتا ہے۔

پاکستان نے کامن ویلتھ گیمز میں اب تک مجموعی طور پر 26 طلائی، چاندی کے 25 اور کانسی کے 26 تمغے جیتے ہیں جن میں ویٹ لفٹنگ میں جیتے گئے طلائی تمغوں کی تعداد دو ہے جبکہ اس کھیل میں پاکستان نے چاندی کے دو اور کانسی کے تین تمغے بھی جیت رکھے ہیں۔ عجیب سی بات ہے پاکستان کا سارا بجٹ اور ساری توجہ کرکٹ پر ہے، سب سے زیادہ قوم کا پیسہ کرکٹ کے کوچز اور کھلاڑیوں کی تربیت پر خرچ کیا جاتا ہے، لیکن پاکستان کے قومی کھیل ہاکی پر کوئی توجہ نہیں، کبھی ہاکی ہمارا فخر تھا، دنیا میں ہماری ہاکی ٹیم کا ڈنکا بجتا تھا۔ پاکستان کی قومی ہاکی ٹیم نے اس ملک کو اس وقت روشناس کرایا تھا جب دنیا میں پاکستان کا نام کم ہی سنا جاتا تھا، ہماری ہاکی ٹیم نے تین اولمپک گولڈ میڈل جیتے، چار عالمی کپ جیتے، تین چیمپئیز ٹرافی جیتی، لیکن آج ہماری ہاکی روبہ زوال ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے مالی سال -2022-23 کے لیے پندرہ ارب روپے کی رقم رکھی ہے۔ ہماری بچیاں جو دن رات محنت کرتی ہیں، اولمپک مقابلوں اور دنیا کے دیگر کھیلوں کے مقابلوں میں جاتی ہیں، انھیں ٹرینگ کے مواقع نہیں ہیں، وہ معمولی ملازمتیں کرتی ہیں، اور عالمی مقابلوں میں پاکستان کا نام روشن کرتی ہیں، لیکن انہیں کوئی سہولت کوئی انعام کوئی اعزاز، کوئی اچھی ملازمت نہیں دی جاتی۔  مجھے شرم آتی ہے جب میں، پیرا ایتھلیٹ انیلہ عزت بیگ سے یہ سنتا ہوں کہ ” میرے لیے وہ لمحہ انتہائی تکلیف دہ تھا جب میں نےفیکٹری مالکان سے کہا کہ مجھے کامن ویلتھ گیمز میں حصہ لینے کے لیے تیاری کرنی ہے تو انہوں نے جواب دیاکہ آپ کو ان دو ماہ کی چھٹیوں کی تنخواہ نہیں ملے گی۔ انیلہ عزت بیگ فیصل آباد کی ایک مشہور ٹیکسٹائل ملز میں صرف 17 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر کام کرتی ہیں۔ انہوں نے کامن ویلتھ گیمز کے پیرا ایتھلیٹکس مقابلوں کے ڈسکس تھرو ایونٹ میں حصہ لیا۔ انیلہ عزت بیگ کہتی ہے کہ میں اس کھیل کو چھوڑنا نہیں چاہتی۔ میں نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا کہ پولیو کی وجہ سے میری بائیں ٹانگ متاثر ہے۔ میرے اندر جذبہ اور جنون ہے اور میں پاکستان کے لیے کچھ کر دکھانا چاہتی ہوں۔ پیرا ایتھلیٹس ہو، کبڈی ہو، پہلوانی ہو، فٹبال ہو، باکسنگ ہو، بیڈمنٹن ہو، اسکوائش ہو، یہ سارے کھیل بھی اہم ہیں، اسپیشل بچوں کے کھیل اور مقابلے بھی اہم ہیں، یہ گلی محلے کے بچے جو کھیل میں بے پناہ صلاحیتوں کے حامل ہیں، یہ بھی پاکستان کے شہری ہیں، انھیں بھی تربیت اور سہولیات ملنی چاہیئے، ان کے لیے بھی بجٹ ہونے چاہیئے، یہ بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے دیگر عام ایتھلیٹس، کرکٹ یا دوسرے کھیل، پرائیوٹ اداروں کو بھی سوچنا چاہیئے، اسپانسرشپ کرکٹ، اسکوائش اور بیڈمنٹن کے بڑے کھلاڑیوں ہی تک محدود نہ رکھیں  اپنے دیگر نوجوانوں کی ہمت افزائی کریں، اپنے کھلاڑیوں کی بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کو ممکن بنائیں۔ یہ شاندار کارکردگی بھی دکھائیں گے اور سبز ہلالی پرچم کو بلند بھی کریں گے، اور پاکستان کا نام روشن بھی کریں گے۔

حصہ
mm
عطا محمد تبسم سینئر صحافی، کالم نگار ہیں،وہ خرم بدر کے قلمی نام سے بھی معروف ہیں اور ان کئی کتابیں، قاضی حسین احمد انقلابی قیادت، محبتوں کا سفر رپوژ تاژ کاروان دعوت و محبت،سید مودودی کی سیاسی زندگی، پروفیسر غفور احمد،محبتوں کا سفیر سراج الحق عوام میں پذیرائی حاصل کرچکی ہیں، مارکیٹنگ کے موضوع پر ان کی تین کتابیں فروخت کا فن، مارکیٹنگ کے گر، اور مارکیٹنگ کے 60 نکات اور 60 منٹ ان کے ان کے اصل نام سے شائع ہوچکی ہیں۔وہ ایک ٹی وی چینل کی ادارت کی ٹیم کا حصہ ہیں۔جنگ، جسارت، نوائے وقت ایکسپریس، جہاں پاکستان میں ان کے کالم اور مضامین شائع ہوتے ہیں۔ وہ ایک اچھے بلاگر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ بیمہ کار میگزین اور بیمہ کار ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔