جدوجہد تیز ہو

صبح صبح پرندوں کی چہچہاہٹ سے اسکی آنکھ کهل گئی۔ فجرکےبعد وہ تهوڑی دیر کے لیئے لیٹی تهی اور آنکھ لگ گئی، پرندوں کے چہچہانے سےآنکھیں کهل گئیں ، شاید وہ سب پرندے مل کر احتجاج کررہے تهے ۔ ذرا غور کیا تو تو کیا دیکها کہ ساری چڑیاں ملکر ایک ہی چڑیا پر چیخ رہی تهیں شاید کوئی بهولی بهٹکی چڑیا اپنے علاقےکو چهوڑ کر دوسرے کے علاقے میں آگئی تهی اور سب احتجاج کے طور پر چیخ چیخ کر اس سے علاقہ خالی کرنے کو کہه رہی تهیں. آخر کار اسکے وہاں سے چلے جانے کے بعد شور کم ہوا. لیکن جب تک وہ خوب بیدار ہوکر کچھ سوچنے میں مگن تهی، کیا انکے بهی علاقے حدود راہداریاں طے ہوتی ہیں ؟ سوچتے ہوئے دوپہر کے کهانے کی تیاری کرنا شروع ہوگئی. شام میں سب گھر والے پارک جانے کی تیاری کرنےلگے۔ باہر گاڑی نکالی تو ایک منظر دیکها محلے کے تمام کتے میدان میں جمع ہوکر زورزور سے ایک کتے پر بهونک رہے تهے اور وہ خاموشی سے کهڑا سب کے شور مچانے کا سامنا کررہا تها وہ حیران تماشا دیکهتی رہی کہ اچانک ایک کتے نے اس نئے آنے والے کتے پر حملہ کردیا اور اسے وہ میدان چهوڑ نے پر مجبور کردیا وہ چیختا چلاتا وہاں سے چلاگیا اور محلے میں دوبارہ سکوت طاری ہو گیا۔ وہ سوچنے لگی کیا جانوروں اور چرند پرند میں بهی یہ شعور ودیعت کیا گیا ہے کہ اپنی زمین اپنی جگہ اپنی حدود کی حفاظت کریں گے اور کسی غیر کی مداخلت معیوب ہی نہیں بلکہ زندگی و موت سے زیادہ اہمیت رکهتی ہے یہاں تک کہ وہ غیر انکی حاکمیت تسلیم کرکے خود کو ان پرانے باسیوں کے سپرد کردے یاپهر وہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے چلا جائے یا موت کو گلے لگا لے۔ شاید یہ اسی لیئے ہے کہ کوئی بهی ذی روح اپنی روایات میں ملاوٹ پسند نہیں کرتا، یہ قدرت کا قانون ہے اور انسان تو اشرف الخلق ہے ان تمام چرند پرند حیوانات نباتات ودیگر مخلوقات سے افضل ترین ہے جس کے لیئے قرآن نازل کیا گیا اور اسے ایک ضابطہ اخلاق کا پابند بنادیا گیا اس سے کہا گیا کہ یہی قومیں برادریاں اور قبائل تمہارے تعارف کا ذریعہ ہیں تاکہ تم لوگ ایک دوسرے کو پہچان لو. شاید اسی لیئے دو قومی نظریے کی ضرورت پیش آئی پاکستان کا تصور اچانک پیدا نہیں ہوا اس کے پیچھے صدیوں کی محنت کارفرما تهی اس تمام صورتحال کے پیچھے ہندو مسلم دشمنی علاوہ تہذیب و ثقافت کا فرق ، مذاہب کا فرق ، ذاتوں کا فرق، قبائل کا فرق ، ذہنیتوں کا فرق واضح تها۔ تقسیم ہند سےپہلے ہندو مسلم ساتھ ملکر انگریزوں کے خلاف احتجاج کرتے لیکن انکے جانے سے پہلے ہی بے یقینی کی کیفیت پیدا ہونا شروع ہوئی تو انہی ہندوؤں نے سکهوں ، مرہٹوں کے ساتھ ملکر مسلمانوں ہی کو ختم کرنے کی کوششیں سازشیں خاموش سازش سازباز شروع کردیئے اور مسلمانوں کے عظیم ترین رہنماؤں احمد شاہ ابدالی، شاہ ولی اللہ، سید احمد شہید کو قتل کرنے کے اسلیئے درپے ہوئے کہ وہ مسلمانوں کے فکری تشخص اور آزادی کے ساتھ ساتھ انکی بنیادی اسلامی عقائد کی مضبوطی کے خواہاں رهے اور اسکے لیئے اپنی ہر ممکن کوشش کو بروئے کار لاتےہوئے مسلمانوں کے الگ تشخص کے لیئے اپنی جانوں کی بهی پروا نا کی، کیونکہ انہیں اپنے مشن سے، اپنے رب سے، اپنے اسلام سے، عشق تها اور عشق تو انسان سے بڑے بڑے کام کرالیا کرتاہے کبهی بے خطر آگ میں کودنے پر مجبور کردیتاہے تو کبهی پیرانہ سالی میں اولاد کی گردن پہ چهری پهروادیتا ہے اور عقل کہیں دور کهڑی حیران و پریشان تماشہ دیکهتی رہتی ہے.

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب و بام ابهی

یہ مجاہدین اسلام اپنی اقدار و روایات اور مسلمانوں کے الگ تشخص کی خاطر ہر دور میں اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کو بیتاب رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں

یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہولگادو ڈر کیسا

گرجیت گئے تو کیا کہنے ہارے بهی تو بازی مات نہیں

انہیں مجاہدین اسلام کی کوششوں کا ثمر ہے کہ ہم ایک علیحدہ تشخص کے حامل ہوئے لاکھوں قربانیوں آرزوئیں ، خاندان اس علیحدہ تشخص کی بهینٹ چڑھ گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس علیحدہ تشخص کی خاطر ہر طرح ہر شخص نے اپنے جان و مال، عزت سلامتی، مال و اسباب، جائیداد و وراثت کی قربانی دی تب یہ علیحدہ وطن ہماری شناخت مسلمانوں کا الگ ملک مدینے کے بعد پہلی اسلامی ریاست اسلام کا وطن لاالہ الاالله کا دیس وجود میں آیا جب مہاجرین کے قافلے لوٹ لیئے جاتے قتل عام کردیا جاتا عزتیں تار تار کردی جاتیں وجود انسانیت مٹی میں ملا دیا جاتا تو بس ایک ہی نعرہ بچے کچے لٹے بے آسراء امیدوں کے لیئے زندگی کی نوید تها اور وہ تها، پاکستان کا مطلب کیا

لا الہ الا اللہ

آج پچھتر سال گزر گئے ہم پاکستانی اس نظریاتی اساس کی محافظت کاحق ادا نا کرسکے

کیونکہ !

کبهی کوئی باہر سے آکر ہماری بیٹی اغواء کر کے دن دہاڑے اپنے ملک لے جاتا ہے ہم خاموش تماشائی

کبهی کوئی امریکی میرے ملک کے باسیوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دیتاہے ہم خاموش.

کبهی کوئی میرا اپنا غیروں کی امداد پر ملک کے خلاف سازشیں کرتا شکیل آفریدی تو ایک استعارہ ہے کتنے ایسے ہیں جو خاموشی سے اپنا کام کررہے ہیں.ہم خاموش۔

کوئی ملالہ اٹھتی ہے میرے مذہب میرے اسلام میرے ملک میری روایات کی ہرزہ سرائی کرکے نوبل انعام یافتہ بن جاتی ہے ہم خاموش۔

کوئی امریکی ڈرون میرے ہی ملک میں میرے ہی شہریوں پر حملے کرتا ہے اور ہم ان لٹے پٹے خاندانوں کی چند سکوں کی مالی امداد کرکے خاموش۔

ملازموں سے بهری فیکڑی دن دہاڑے نظر آتش کردی جاتی ہے. ہم سب کچھ جانتے ہوئے بهی خاموش۔

سیاستدان دست و گریباں ہیں اور ہم خاموش۔

علمائے کرام بیدردی سے قتل کردیئے جاتے ہیں ہم خاموش۔

تعلیم کے نام پر گندگی کا طوفان معصوم بچوں کے ذہنوں میں انڈیلا جارہا ہم خاموش۔

ہسپتال مذبح خانوں کا روپ دھار چکے ہیں اور ہم خاموش۔

سرکاری اداروں میں رشوت سفارش کا بازار گرم ہے اور ہم خاموش۔

کیوں؟ آخر کس لیئے کیا ہم ان چرند پرند سے بهی بدتر ہوگئے جنہیں کم از کم اپنی علیحدہ شناخت و تشخیص کا خیال تو ہے۔

لیکن اب ہمیں جا گنا ہے، ہمیں زندہ رہنا ہے کیونکہ ہم زندہ قوم ہیں ہمیں ان تمام سازشوں کا مقابلہ اپنی علیحدہ شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے کرناہوگا. ہمیں لوگوں میں شعور و آگہی کو بیدار کرنا ہوگا اسکے لیئے ہمیں خود بهی آگہی کی دولت، مذہب کی تعلیم وتربیت سے مالامال ہونا ہوگا تاکہ عام افراد، لوگوں، خاندانوں، قبیلوں، برادریوں، محب وطن شہری، پڑوسی، ہمسایئے، دوست، احباب و اقرباء تمام کو آگہی دے سکیں ہمیں اس ملک اس نظریئے اس پاک دهرتی کی اساس کو قائم و دائم رکهتے ہوئے ان تمام سازشوں اور غداروں، لٹیروں کامقابلہ کرناہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پاکستان کی نظریاتی سرحدوں، جغرافیائی سرحدوں، ثقافتی سرحدوں اور دینی و بنیادی سرحدوں کی حفاظت فرمائے۔

ہم تو مر جائیں گے اے ارض وطن تجهکو مگر

زندہ رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک