آزادی کی قدر کرو

کنزہ صحن کا پانی نکال نکال کے تھک گئی تھی اب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا بارش ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے کنزہ کراچی میں رہتی اورمتوسط گھرانے سے تعلق رکھتی ہے جب بھی بارش ہوتی ہے وہ اس ہی طرح صحن کا پانی نکال کر تھک جاتی ہے آج بھی صحن سے بارش کا پانی نکال کر تھک گئی توغصہ سے کہتی ہے کہ کس لئے پاکستان بنایا تھا، مہنگائی کا حال دیکھو سڑکیں ٹوٹی پھوٹی بجلی گیس پانی سمیت کسی قسم کی سہولت ہے؟ عوام کا جینا دوبھر ہے۔

بارش کا مزہ تو انڈیا میں آتا ہے کیسے چار سو ہریالی پھیل جاتی ہے درخت پودے پھول دھل کر نکھر جاتے ہیں اور خوشی سے لہلہاتے ہیں اداس پنچھی ہو یا انسان سب کے دل خوشی سے منور ہوتے ہیں۔

کنزہ کی دادی صحن میں چار پائی پر بیٹھی اس کی باتیں سن رہی تھیں وہ کنزہ کو اپنے پاس بلاتی ہیں اور پیار سے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہتی ہیں کہ کنزہ بیٹی ہماری نئی نسل کایہ ہی المیہ ہے کہ اپنی تاریخ سے واقف نہیں ہوتے اور جو لوگ پروپیگنڈہ پھیلاتے ہیں بس اس کو ہی سچ سمجھتے ہیں میں تمہیں بتاتی ہوں پاکستان کیوں وجود میں ایا؟۔

ہندوستان میں جب مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی اور انگریزوں نے قبضہ کرلیا اور کئی برس تک ہندوستان میں حکومت کی جب ہندوستان چھوڑنے کا ارادہ کیا تو حکومت ہندوؤں کےحوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔

علامہ اقبال کو خبر ہوئی توانہوں نے سوچا اگر حکومت ہندوؤں کے ہاتھ اگئی  تومسلمان دوسرے درجے کے شہری بن کر رہ جائیں گے تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ جائیں گے نوجوانوں کو سرکاری نوکریاں بھی نہیں ملیں گی اور مذہبی آزادی بھی نہ ہوگی۔

یہ سوچ کر آپ نے پاکستان کا تصور پیش کیا اور دو قومی نظریہ کی بات کی قائد اعظم نے اس کی تکمیل کی قائد اعظم کوتحریک پاکستان کی جدوجہد کے دوران  ٹی بی کی بیماری لاحق ہوگئی لیکن ان کی بہن فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کے حکم پر اس بیماری کو چھپا یا وہ ڈاکٹر تھی گھر میں علاج کرتی رہیں۔ ہجرت کے وقت لاکھوں قربانیاں دی گئیں ماوؤں، بہنوں کی عصمت دری کی گئی۔

میں تمھیں سچاواقعہ سناتی ہوں جس کا تعلق خود میری زندگی ہے ہاں أج بھی میرے ذہن میں ایسے نقش ہے جیسے کل کی بات ہو، میری عمر سات سال ہوگی جب ہم نے پاکستان کی طرف ہجرت کی جیسے میں اج تک بھلا نہ سکی جب پاکستان بن گیا اور مسلمانوں نے پاکستان کی طرف ہجرت کرنا شروع کر کردی تو میرے والد نے بھی پاکستان جانے کا ارادہ کیا میں امی میری دو بڑی بہنیں چھوٹے بھائی کو لے کر ریلوے اسٹیشن کی طرف چلے راستے میں ہم کئی خون الود لاشوں کو پھلانگتے ہوئے اگے بڑ ھتےجارہے تھے کہ اچانک سامنے سے ہندؤوں نے حملہ کر دیا، امی نے دونوں بہنوں کے ساتھ دریا میں چھلانگ لگا دی ابو اور بھائی کو  ہندوؤں نے بے دریغ قتل کر دیا میں کسی طرح اپنی جان بچا کر اسٹیشن پہنچ گئی لوگوں نے مجھے ٹرین میں سوارکرایا،میں ڈری سہمی ایک فیملی کے ساتھ بیٹھ گئی اور پاکستان پہنچ گئی اس فیملی نے میری داستان سن کر مجھے اپنی فیملی کا ممبر بنا لیا۔ کنزہ ! کتنی بہنوں اور بیٹیوں نے کنوئیں و دریا میں چھلانگ لگا کر جانیں قربان کر دیں ان کی قربانیوں کی وجہ سے آج ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔

ہاں پاکستان کی بد قسمتی کے قائد اعظم جلد ہی انتقال کر گئے ان کے بعد جو بھی حکمراں آئے مادہ پرست مفاد پرست اس لئے پاکستان کو بنے(75) سال ہوگئے ہیں پاکستان ترقی کرنے کے بجائے زوال کی طرف جارہاہے ایک تو حکمران مادہ پرست اوپر سے امریکہ کی بھی یہ ہی سازش کہ نوجوانوں کی صلاحیت کو ختم کر دیں انٹر نیٹ اورموبائل میں الجھا دیا، تعلیمی نظام درہم برہم کر دیا ان کا تو مشن ہی یہ ہے پاکستان کا نام صفحہ ہستی سے مٹ جائے لیکن الله تعالیٰ کا بڑا کرم ہے پاکستان ان حالات کے باوجود سلامت ہے۔

اب پاکستان کے حالات تم نوجوان ہی بدل سکتے ہو اپنے لئے کرپشن سے پاک اور ایماندار لیڈر کا انتخاب کرو۔ کنزہ  ! اپنے پاکستان کی اور اس اذادی کی قدر کرو

دادی کی اپ بیتی سن کر کنزہ کی آنکھیں نم ہوگئیں اور سوچتی ہے کہ دادی کتنے مشکل حالات سے گزری ہیں۔ پاکستان کے حالات بھی دیکھ رہی ہیں لیکن پھر بھی اللہ کی ذات سے پر امید ہیں کہ ان شاءاللہ ایسا پاکستان ضرور بنے گا جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا۔

کنزہ پیار بھری نظروں سے اپنی دادی کی طرف دیکھتی ہے اور اس کو اقبال کا یہ شعر یاد اگیا،

پیوستہ رہ شجر سے

اُمید بہار رکھ ۔