جشن آزادی

لہو وطن کے شہیدوں کا رنگ لایا ہے، اچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی۔

مما مما ہمارے اسکول میں یوم آزادی کے لئے پروگرام رکھا ہے مجھے قومی نغمہ سنانا ہے اور اس کے لئے جھنڈا بھی منگوایا ہے میں اسکول لے کر جاؤں گا “۔

سنان نے اسکول سے آتے ہی پرجوش انداز میں صفیہ بیگم کو کہا۔

صفیہ بیگم اور جہانگیر صاحب کے تین اولاد ہیں سنان، منان اور افغان جو کہ اپنے والدین کے لاڈلے ہیں۔ ” اچھا تو سنان آپ نےاس پروگرام میں آپ کو قومی نغمہ سنانا ہے اور منان، افغان آپ نے حصہ نہیں لیا اور صرف نغمہ ہی سنانے ہیں کیا کوئی تاریخ کے حوالے سے بات یا کوئی ٹیبلو یا تقاریر نہیں ہوں گی جس سے آپ کو یہ اندازہ ہو پاکستان بننے کا کیا مقصد کیا عوامل تھے کیسے پاکستان وجود میں آیا اور اس کے بننے کے بعد کے کیا مسائل درپیش تھے اور مسلمانوں نے کیا کیا قربانیاں دیں۔

صفیہ بیگم بچوں کے لئے کھانا گرم کرتے ہوۓ بولیں۔

جی جی مما بہت اچھا پروگرام ترتیب دے رہے ہیں اس میں تقاریر، ٹیبلو، اور بہت سے مہمان خصوصی ہونگے جو ہمارے ملک پاکستان کی تاریخ کے سلسلے میں روشنی ڈالیں گے دیکھۓ گا اس سے ہمیں سبق ملے گا اور ہم کو اپنے ملک کے لئے کچھ کرنے کا عزم بھی پیدا ہوگا اور میں نے تقریری مقابلے میں حصہ لیا ہے”۔ منان بولا۔ “ارے واہ یہ تو بہت اچھی بات ہے صفیہ بیگم خوش ہو کر میز پر کھانا لگاتے ہوئے بولیں۔”امی اور ابو آپ بھی چلیۓ گا اسکول سب کے والدین کو بھی بلایا ہے اور آپ کو پتا ہے نغمہ میں اور تقاریر میں حصہ لینے والے بچوں کو سفید کرتا شلوار اور ہرے دوپٹے گلے ڈالنے ہونگے اور ٹیبلو میں ڈرامہ کے کردار کے مطابق، میں نے تو ٹیبلو میں حصہ لیا ہے میں قائد آعظم بنوں گا، کتنا مزا آئے گا نہ”.

افغان بھی پر جوش انداز میں بولا ۔” ارے واہ ہم تو ضرور جائیں گے صفیہ بیگم نے بچوں کا جوش خروش دیکھتے ہوئے کہا۔ °دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت،،،۔

میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی۔ اسی طرح خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا اب سب کو یوم آزادی کا انتظار تھا اب روز منان اور سنان تقریر اور ملی نغمہ سنانے کی پریکٹس کرتے جوں جوں یوم ازادی یعنی 14 اگست کا دن آنے والا تھا۔

ہر طرف چہل پہل تھی اور آس پاس کے گھروں میں جھنڈیوں کی سجاوٹ کی تھی اور کچھ گھروں میں جھنڈے لگے تھے اور سنان، منان نے بھی اپنے گھر کو نہ صرف جھنڈیوں سے سجایا تھا بلکہ پاکستان کا جھنڈا اور لائٹیں بھی لگا دیں اور آج تو کسی کو خوشی سے نیند ہی نہیں آرہی تھی۔

بیٹا چلو اب سو جاؤ صبح اسکول بھی جانا ہے صفیہ بیگم نے چھت پر آکر کہا کہ سب بچے اور تو اور جہانگیر صاحب بھی بچوں کے ساتھ بچہ بنے ہوئے تھے ۔

سب نے صفیہ بیگم کی آواز سنی تو ڈوڑ کے نیچے آئے اور سونے کی تیاری کرنے لگے۔

چلو بھئی اٹھ جاؤ صبح ہو گی اسکول جانا ہے آج تو 14 اگست ہے یوم آزادی کا دن آج ہمارا ملک پاکستان آزاد ہوا ہم مسلمان اپنی الگ مملکت میں سانس لے رہے اور اس خوشی کو یاد کر نا ہے نئی امنگ کے ساتھ اٹھنا ہے اور آج تو اسکول میں پروگرام بھی ہے اب اٹھ جاؤ. صفیہ بیگم بولیں.

سب نے جیسے ہی صفیہ بیگم کی پکار سنی سب فورا اٹھ بیٹھے اور اسکول کے لئے تیار ہونے لگے اور صفیہ بیگم ناشتہ بنانے کے لئے کچن کی طرف چلی گئیں ناشتہ کر کے سب اسکول کی طرف روانہ ہوئے راستے میں ہر طرف رونق ہی رونق تھی ہر طرف پاکستان کے جھنڈے اور جھنڈیوں کی سجاوٹ کی گئی تھی اور ہر اسکول سے بچوں کے ملی نغمے کی آوازیں سنائیں دے رہی تھی سب میں ایک طرح کے جزبہ دکھائی دے رہا تھا اس طرح وہ سب اسکول پہنچے۔ انھوں نے پھر سے پریکٹس کی اور وہ وقت بھی آگیا جب پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا گیا صفیہ بیگم اور جہانگیر صاحب بھی آگئے تھے سب سے پہلے سب والدین کو خوش آمدید کہا گیا اور اس کے لئے ہر جماعت کے بچوں نے ایک ترانہ سنایا پھر تلاوت ہوئی، نعت سنائی گئی، حدیث سنائی گئی پھر تقاریر کا مقابلہ شروع ہوا جس میں سب بچوں نے بھرپور اپنا حصہ ڈالا اور اچھے طریقے سے اپنے وطن سے محبت کا اظہار کیا اس کے بعد ٹیبلو پیش کیا گیا ٹیبلو بھی بہت زبردست طریقہ سے کیا گیا ایسا لگ رہا تھا وہ وقت دوبارہ آگیا ہو جب ہندستان الگ ہوا کیوں کے اسٹیج پر ایسا ماحول دیا گیا تھا۔ اور بچوں نے ایسی اداکاری کی کہ سب والدین کی آنکھوں سے آنسو آگئے اس میں قائد آعظم اور ان کے ساتھیوں اور مسلمانوں کی جدوجہد دکھائی گئی ان پر جو مظالم کئے گئے ان سب کی نشاندہی کی گئی اور آخر کار 14 اگست 1947 کو پاکستان وجود میں آگیا ان سب کا منظر ایسا پیش کیا گیا کہ حقیقت کا گمان ہوا۔ پھر ملی نغمے کا مقابلہ ہوا آخر میں مہمان خصوصی نے پاکستان کے بننے کے بعد مسلمانوں کو جو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور پڑھ رہا ہے اس پر روشنی ڈالی اور مقابلہ میں حصہ لینے والے بچوں کو انعامات پیش کئے، سنان کو ملی نغمہ میں ایوارڈ دیا گیا، اور منان کو بہترین تقریر پر انعام ملا۔ اس طرح آج سب بچے ایک نئی امنگ کے ساتھ گھر جارہے تھے کہ ہم پڑھ لکھ کر کچھ ایسا بن کر دکھائیں گے اس ملک کے لئے کچھ کر کے دکھائیں گے اور اس کا نام روشن کریں گے۔

°ہے محبت اس وطن سے اپنی مٹی سے ہمیں،

اس لئے اپنی کریں گے جان و تن قربان ہم۔