ترازو والےچیلنج قبول کرنے کوتیار کیوں؟

یہ شہادت گہہِ الفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلمان ہونا

ہر سنجیدہ ذہن رکھنے والا پاکستانی سوچنے پر مجبور ہے کہ ملکی حالات کا دھارا کس رخ پر بہہ رہا ہے؟ گالی گلوچ اور طعن و تشنیع ہماری سیاست کا خاصا رہ گیا ہے۔ کرپشن اور اقربا پروری حکمرانوں کا شیوہ ہے۔ عوام الناس اخلاقی پستی کا شکار ہیں۔ بد دیانتی، دھوکہ دہی اور رشوت ستانی عام ہے۔ مہنگائی ہے، بے روزگاری ہے۔ سودی نظام نے ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ملک قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ کیا خیال ہے آپکا؟ ان خرابیوں کو درست کرنا اور ملکی حالات کو صحیح نہج پہ لانا، کسی بھی حکمران پارٹی کے لئے آسان کام ہے؟ بالکل نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ترازو والے اتنا خطرناک چیلنج قبول کرنے کو کیوں تیار ہیں؟ کیا انکے ساتھ کوئی غیبی طاقت ہے جو اس ملک کی تقدیر بدل دے گی؟ یقیناً ہے اور وہ ہے اللہ کی نصرت پر یقین۔

فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

دوسری بڑی وجہ جس نے جماعت اسلامی کو اس پُرخطر میدان میں کود جانے پر مجبور کیا، وہ ہے الله تعالیٰ کی طرف سے پکڑ کا خوف۔ برائی کو برائی جانتے ہوئے بھی روکنے کی کوشش نہ کرنا بجائے خود ایک گناہ ہے۔ پیارے نبیﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی برائی ہوتے دیکھے تو اسے ہاتھ سے روکے۔ اگر یہ نہ ہو سکے تو زبان سے منع کرے ۔ اگر یہ بھی نہ کر سکے تو اُسے دل سے برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔

میرے ہم وطنو! آپکے ملک میں ابھی اہل دین اتنے بھی کمزور نہیں ہوئے کہ ایمان کے ادنیٰ درجے کو قبول کرلیں۔ وہ تڑپ رہے ہیں، پھڑک رہے ہیں ان برائیوں کو دیکھ کر جو دن بدن بڑھتی جارہی ہیں۔ انکے دل بےچین ہیں انھیں روک دینے کو، کہ خوف خدا کا تقاضا یہی ہے۔ مشہور صحابی رسول‎ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیان کردہ یہ حدیث تو آپ نے سنی ہوگی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ عزوجل نے جبرائیل کی طرف وحی کی کہ فلاں فلاں شہر کو اسکے باسیوں سمیت الٹ دو ۔ اُس نے عرض کیا رب جی! ان میں تو تیرا فلاں بندہ ہے جس نے آنکھ جھپکنے کے برابر تیری نافرمانی نہیں کی۔ نبیﷺ نے بیان فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس (شہر) کو اس پر، اوران پر الٹ دو کیونکہ اسکا چہرہ میری خاطر کبھی لمحہ بھر کے لئے بھی متغیر نہیں ہوا۔ (رواہ البیھقی)

تو کیا خیال ہے ان اقتدار کے حریص لوگوں کو یونہی چھوڑ دیا جائے کہ اپنی من مانی کرتے پھریں اور فہم دین رکھنے والے مسجد ومدرسہ میں مقید ہو کر رہ جائیں؟ ہماری بد قسمتی که ۹۰ سالہ دور غلامی میں انگریز سرکار نے مسلمانان برصغیر کو دین و دنیا کے درمیان حد فاصل قائم کرنا سکھا دیا۔ دین صرف نماز، روزہ، حج زکوٰۃ تک محدود، باقی زندگی جیسے چاہو گزارو۔ اس نظریہ نے رفتہ رفتہ مسلمان سے دین کی اصل روح نکالنے کا کام انجام دیا۔ مسلمان کی زندگی کا مقصد تو رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ اور رضائے الٰہی کیا ہے؟ اللہ کی زمیں پر اللہ کا نظام قائم کرنا۔ اسکی تصدیق میں۔ مولانا مودودی کا صدر ایوب خان کے ساتھ ایک مکالمہ میرے ہاتھ آیا ہے بعنيهٖ آپکی خدمت میں پیش ہے تا کہ آپ اسکی روشنی میں اچھی طرح مقصد زندگی کو سمجھ سکیں ۔

ایوب خاں نے کہا مولانا آپ اتنی بڑی علمی شخصیت ہیں، آپ سیاست کے گندے میدان میں کیوں آگے ہیں؟ مولانا نے جواب دیا، کیا آپ کا خیال ہے کہ اس میدان کو گندا ہی رہنے دیا جائے؟ تب صدر نے آپ کی دینی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے یہ تجویز پیش کی کہ آپ جیسی علمی شخصیت کو اپنی عمدہ صلاحیتیں سیاست میں ضائع کرنے کی بجائے ان سے قومی تعمیر کا کوئی کام لینا چاہئے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم ملک میں ایک شاندار اسلامی یونیورسٹی قائم کریں جسکی سربراہی کا کام آپ کے سپرد کیا جائے۔ یونورسٹی کے لئے دو کروڑ روپے کی گرانٹ مختص کی گئی۔ یہ رقم اور حکومت کی طرف سے ملنے والی تمام گرانٹ پر آپ کو تصرف کا مکمل اختیار ہوگا۔ آپکو اس پر آڈٹ وغیرہ کی پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا۔

مولانا کا جواب تھا مجھے اپنی زندگی کو صرف اپنے خالق کی رضا کے مطابق صرف کرنا ہے۔ اسکا بندہ ہونے کی حیثیت سے مجھے اس سرزمین میں اُس دین کے نفاذ کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینی چاہئیے جسکو خالق نے اپنے بندوں کے لئے پسند فرمایا۔ آپ اس ملک میں مکمل اسلامی نظام نافذ کر دیجئے۔ پھر آپ مجھے ایک چپڑاسی کا عہدہ دیں گے تو میں اسے سعادت سمجھوں گا۔ لیکن اگر یہاں حکمرانی کا موجودہ چلن ہی جاری رکھیں تو مجھے نائب صدر کا عہدہ بھی پیش کریں تو میں اسکے لئے بھی تیار نہیں ہوں ۔ حتی کہ مجھے موت آجائے اور میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں۔ صدر نے کہا، آپ کو معلوم ہے انکار کی صورت میں آپکا انجام کیا ہوگا؟ مولانا مودودی نے فرمایا مجھے خوب معلوم ہے صدر صاحب ! میں نے جس روز سے یہ مقصد زندگی اپنایا تھا، اس مقصد زندگی سے وابستہ لوگوں کے لئے دنیا والے کس انجام کے درپے ہوتے ہیں ؟

اس جرم کی پاداش میں آپ نے بارہا جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ زندگی بھر اس مملکت خداداد میں نظام اسلام کے نفاذ کے لئے کوشاں رہے۔ اب انکے پیروکار جماعت اسلامی کے روپ میں انکے اس خدائی مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پیغمبر اسلامﷺ نے ریاست مدینہ قائم کرکے دکھا دیا تھا کہ حکومت اور اقتدار کے بغیر نظام اسلام قائم کرنا ناممکن ہے۔

میرے عزیز ہم وطنو! اب یہ آپ کے اختیار میں ہے کہ آئندہ آپ زمام اقتدار ظالم و جابر، خود غرض اور بدیانت حکمرانوں کے ہاتھ میں دیتے ہیں یا مخلص، محب وطن اور دیانت دار لوگوں کو تھماتے ہیں۔ اگر آپ ملک و قوم کی بھلائی، خوشحالی اور ترقی کے خواہاں ہیں تو آپکو دین کا صحیح فہم رکھنے والے نمائندے اسمبلیوں میں بھیجنا ہونگے ورنہ بقول علامہ اقبال آپ کو نتیجہ اس صورت میں ملے گا،

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی !