اعتدال ! اطاعت بھی، سہولت بھی‎‎

 

اعتدال دین اسلام کا اہم جزو ہے، اسے معاشی، معاشرتی بلکہ ہر شعبہ زندگی میں مثالی نکتے کی حیثیت سے شامل کر لیا جائے اور پھر اس پر عمل پیرا بھی ہوا جائے تو معاشرہ جنت نظیر بن جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں خرچ میں اعتدال کو آدھی معیشت کہا تو کہیں معیشت میں توسط کو دانائی کی علامت قرار دیا، عبادات میں بھی اعتدال لیکن مستقل مزاجی کو پسندیدہ قرار دیا۔ لہٰذا اس عبادت کی کثرت کو مستحسن نگاہ سے نہیں دیکھا جس کی ادائیگی میں دوسرے انسانوں کے حقوق کو نظر انداز کیا گیا ہو۔ اس کے برعکس تھوڑے لیکن مداومت والے عمل کو پسند کیا۔ معاملات میں بھی اعتدال کا دامن تھامے رکھنے کو کہا۔ لہٰذا قرض جیسے اہم معاملے میں بھی وصولی میں نرمی برتنے کا حکم دیا۔ بلاسود مہلت دینے کی ترغیب دی۔ فتح مکہ والے دن کا طرز عمل خوشی میں اعتدال برتنے کا سلیقہ سکھاتا ہے، تو ہجرت کا عمل بھی بیک وقت نیشنلزم پر چوٹ اور وطن سے فطری محبت کے حسین امتزاج سے بھرپور در حقیقت اعتدال کا ہی پیغام ہے۔ جب نظریے کو وطن پر فوقیت دے کر نیشنلزم ایسے شدت پسند نظریے کی تکذیب کی، تاہم وطن سے فطری محبت کا مظاہرہ بھی مکہ چھوڑتے ہوئے سیرت نبوی صلیٰ اللہ علیہ وسلم میں بخوبی ملتا ہے۔

مہمان نوازی جیسی اہم اور خوبصورت صفت کو بھی اعتدال کی تعلیم نے بوجھل ہونے سے بچا لیا۔ طاقت سے بڑھ کر مہمان نوازی کرنا بھی منع کر دیا۔ تحفے تحائف کا لین دین بھی اسلامی معاشرت کو خوشگوار بناتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ بکری کے کھر جیسے تحفے کو بھی دینے اور لینے والے کی نگاہ میں حقارت سے بچا کر تحفے کو معمولی سمجھنے کی حوصلہ شکنی کی،تا کہ اخلاص اور آپس میں ربط بڑھے۔ گویا تحفے کی ظاہری حیثیت کو تعلقات کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دیا۔ یوں تحائف کے لین دین کو افراط وتفریط سے بچا کر اعتدال کی روش پر گامزن کر دیا اور تحائف کے لین دین کو بوجھ بننے سے بچا لیا۔ جنرہشن گیپ میں بھی بڑے اور چھوٹے میں معتدل تعلق قائم کرنے والی ترغیب ہی نے۔ کہ جو ہمارے بڑوں کا ادب نہیں کرتا اور ہمارے چھوٹوں سے پیار نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔ پل کا کام دیا۔ غصے کو قابو کرنا سکھایا اور غم کے اظہار کے آداب بھی سکھائے کہ آنسو بہانے کو مردانگی کے خلاف نہیں سمجھا اور نوحہ و گریبان چاک کرنے کو غم کے اظہار کا جاہلی طریقہ کہہ کر روک دیا۔

پس اعتدال کی روش اطاعت کے اجر سے بھی ہمکنار کرتی ہے اور سہولت کا باعث بھی ہے یہ فرد سے لے کر معاشرے اور ملک سے تمام عالم کے لئے سہولت کا پیغام ہے، شدت پسندی و انتہا پسندی کو روکتی ہے خواہ مکاتب فکر میں پائی جائے اور فرقہ وارانہ تعصب کی شکل میں اس کا اظہار ہو یا طاقت و سپر پاور کے نام لیوا مسلمانوں کی نسل کشی تو کبھی الزام تراشی کر کے اس انتہا پسندی کے مرتکب ٹھہریں۔ اسلام تو حدود کے نفاذ کے سلسلے میں بھی اتنا معتدل اور محتاط تعلیم کا قائل ہے کہ شک کی بناء پر سزا دینے کی بجائے چھوٹ دینے کی ترغیب دیتا ہے، گویا انفرادی زندگی سے اجتماعی زندگی تک معتدل تعلیمات پر مبنی اس دین کی اطاعت کو پکڑ لیا جائے تو سہولتیں آپ کی منتظر ہوں گی اور انتہا پسندی اپنی موت آپ مر جائے گی۔

اللہ ہمیں اعتدال اختیار کرنے کی توفیق دے۔ ا’مین ۔