ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں

کل سارا دن گھر میں ٹی وی کھلا ہی رہا بچے سپریم کورٹ کا فیصلہ سننا چاہتے تھے بڑے صاحبزادے تو شرط بھی لگا رہے تھے مذاق کر رہے تھے اپنے چھوٹے بھائیوں سے میں نے کئی بار کہا ٹی وی بند کرو بھئی پتا ہے بل کتنا ذیادہ آرہا ہے میرے کہنے پر تھوڑی دیر کو بند کرتے مگر پھر کھول لیتے اور سچی بات ہے بے چینی تو مجھے بھی تھی دیکھیں کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

بلآخر فیصلہ آگیا صحیح یا غلط میں اس بحث میں نہیں پڑتی مگر میرے دل میں ایک خیال بار بار آتا رہا اور وہ یہ کہ کیا سپریم کورٹ صرف پنجاب کے لئے ہے کیا کراچی کی ناگفتہ بہ حالت کسی سپریم کورٹ، ہائی کورٹ کو نظر نہیں آتی کیا ہم کراچی والے اس ملک کا حصہ نہیں ہیں۔

کراچی تقریباً %70 ریونیو کما کر دینے والا شہر ہے اور پورے ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے مگر اس شہر کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک روا رکھا جا رہا ہے، پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو ہٹانے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے تو کراچی کے وزیر اعلیٰ سے بھی کبھی رپورٹ طلب کر لیں کہ وہ کراچی کے لئے کر کیا رہیں ہیں۔ کراچی میں تو لگتا ہے گورنمنٹ کا ہر ادارہ بے اختیار ہے اسی لئے کوئی بھی اپنی کارکردگی دکھانے کو تیار ہی نہیں ہم کراچی والے تو لگتا ہے آزاد ملک کے شہری ہی نہیں ہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر یا فلسطین میں رہ رہے ہیں جہاں ضرورت کی بنیادی چیزیں ہی ہم پر بند کر دی گئیں ہیں۔ پینے کا صاف پانی ہمیں میسر نہیں، گیس ہم پر بند کر دی جاتی ہے، لوڈشیڈنگ کا عذاب ہم بگھت رہے ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ ہمیں میسر نہیں، نوکریوں کے لئے کراچی کے نوجوان دھکے کھا رہے ہیں، علاج کی سہولت سے بھی کراچی کا کوئی واسطہ نہیں سمجھ نہیں آتا، کراچی کا قصور کیا ہے اور کس ناکردہ گناہوں کی سزا کراچی کی کتنی نسلوں کو بھگتنا ہوگی۔

سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ والی سرکار آپ سے صرف اتنی ہی گزارش ہے کچھ نظر کرم ادھر بھی کہ ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں، مانا کہ لاڈلے نہیں ہیں مگر اتنے امتیازی سلوک کے حقدار بھی نہ ٹہرائیں کہ جان سے ہی گزر جائیں۔

کراچی کی عوام کو بھی اب یہ بات سمجھنی ہوگی کہ دوسروں کا آسرا کرنے کے بجائے اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں بلدیاتی الیکشن قریب ہیں اپنے لئےایماندار قیادت کا انتخاب کریں ووٹ ڈالنے ضرور جائیں اپنے قیمتی ووٹ کو ہرگز ضائع نہ کریں اور مہر لگاتے وقت یہ ضرور یاد رکھیں کہ کون ہے وہ جو کراچی کے ہر مسئلے میں کراچی والوں کے ساتھ کھڑا تھا کون ہے جو سردی کی بارش میں اُمید کی شمع جلائے سڑک پر بیٹھا تھا کون ہے جو شادمان نالے میں ڈوبنے والی فیملی کے دکھ پر آنسو بہارہا تھا وہ آنسو دل سے نکلے تھے اور کراچی کی عوام کے دل پر گرے تھے۔ اب وہ وقت بہت دور نہیں جب ان آنسوؤں کا حساب ہوگا بے حس حکمرانوں تم سب کا احتساب ہو گا۔ بس ڈرنا اس وقت سے جب کراچی کی عوام اپنا فیصلہ اللہ پر نہ چھوڑ دے کیونکہ وہ سب سے بڑا منصف ہے اس کی لاٹھی بے أواز ہے۔