لاوارث شہرِ کراچی کی ایک آخری اُمید

تیز ہو تیز ہو جدوجہد تیز ہو۔ حق دو کراچی کو۔ اب کے برس ہم اہلِ کراچی اپنا پورا حق لیں گے۔ ڈکیتی اور اسٹریٹ کرائمز ختم کرو کراچی کے عوام کو تحفظ دو۔ پانی ٹینکروں میں نہیں نلکوں میں چاہیے۔

اگر آپ کراچی میں رہتے ہیں تو آپ نے اکثر یہ جملے اور نعرے مختلف احتجاج اور دھرنوں میں سنیں ہوں گے۔ آخر کون ہیں یہ میرِ کارواں جو کراچی کے مسائل کے حل کے لئے ہمیشہ تیار کھڑے ہیں۔ کراچی کے ہر شخص کی زبان پر صرف ایک ہی نام ہے حافظ صاحب۔ لاوارث شہرِ کراچی کی ایک آخری اُمید حافظ نعیم الرحمٰن صاحب۔ جب بھی بات کراچی کی آئی یہ خدمت کے جذبے سے سر شار ہر مشکل میں شہریوں کی مدد کے لئے صفِ اول میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ سرجانی ٹاؤن ہو یا شادمان ٹاؤن۔ پانی، بجلی، گیس، کے مسائل ہوں، یا شہر کے بلدیاتی مسائل، جعلی مردم شماری پہ بات ہو یہ کوٹہ سسٹم پر، ٹرانسپورٹ کے مسائل ہوں یا حکومتی نااہلی پر احتجاج۔ خواتین کے لئے رکشوں میں سفر کے باعث صحت کے مسائل ہوں یا واٹر بورڈ کی ظالمانہ پالیسیاں۔ یہ اپنی ذات کو پسِ پشت رکھے۔ بارش ہو، آندھی یا طوفان، یہ ہمیشہ آپ کو کراچی کے حقوق کی جنگ لڑتے نظر آئیں گے۔

میں نے کبھی کسی عوامی رہنما کو ایسے سخت موسم میں کھلے آسمان تلے عوام کی خاطر بیٹھا نہیں دیکھا۔ آخر یہ کونسا ایمانی جذبہ ہے جو خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار شدید سردی اور بارش میں عوام کے لئے صبر سے بیٹھنے پر مجبور کرتا ہے، ایک طرف شہرِ کراچی کے حقوق کے لئے دھرنا بھی جاری ہے، نمازیں بھی پابندی کے ساتھ ادا کی جارہی ہیں، محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں نعت گوئی بھی کر رہے ہیں، حتیٰ کہ بارش اور ٹھنڈ کی سختیوں کو برداشت کرتے نوجوانوں کی ہمت اور حوصلہ افزائی کے لئے اُن کے ساتھ مل کر کرکٹ بھی کھیل رہے ہیں۔

کیا آپ نے کبھی کسی کو کراچی کی عوام کے لئے آبدیدہ دیکھا ہے؟ کتنے ہی لوگ کراچی میں ناقص حکومتی کاموں کے تحت کرنٹ لگنے سے مر جاتے ہیں، کتنے ہی جوان کراچی کی سڑکوں پر ٹینکر مافیا کی لاپرواہی کا شکار ہو جاتے ہیں، کوئی ہے جو میرے شہر کے لوگوں کے مرنے پر حکومت سے بازپرس کر سکے۔ کیا ہماری جانوں کی کوئی قیمت ہے؟ یا پورے پاکستان کو چلانے والا شہرِ کراچی لاوارث ہے؟ مانا کہ حادثات ہر جگہ پیش آتے ہیں۔ لیکن حکومتی نااہلی کے سبب شاید ہم کراچی کی عوام ہی موت کی بھینٹ چڑھتی ہے۔ آنکھیں بھیگ گئیں تھیں اُس وقت، جب حافظ صاحب شادمان ٹاؤن میں اُس معصوم بچے کے غم میں نڈھال بے بس باپ کی بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے تھے۔ دل میں خیال آیا کہ نہیں ۔ اب بھی کراچی شہر کے غم میں رونے والے موجود ہیں۔ آپ کے غم، آپ کے دکھ بانٹنے والے کھڑے ہیں آپ کے ساتھ چاہے آپ کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، یہ بلا تفریق آپ کے مسائل حل کرنے موجود ہیں۔

کراچی شہر میں خواتین اور طالبات کے ٹرانسپورٹ کے مسائل پر بات کرنے کے لئے حافظ صاحب کے علاؤہ اور کوئی نہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے پوائنٹس میں جس طرح طلبہ و طالبات اپنی جان پر کھیل کر سفر کر رہے ہوتے ہیں یہ انتہائی افسوناک ہے، لیکن پبلک ٹرانسپورٹ کا بڑھتا ہوا کرایہ ہر طالب علم کے لئے برداشت کرنا ممکن نہیں جس کے باعث وہ یونیورسٹی کے پوائنٹس میں سفر کرنے کے لئے مجبور ہے۔

جب میں حکومتی نااہلی کے باعث اپنے لوگوں کو موت کی نظر ہوتا دیکھتی ہوں تو مجھے حضرت عمر بن خطابؓ کا دورِ حکومت یاد آتا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ روتے ہوئے فرماتے تھے کہ اگر دریا فرات کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھی پیاسا مرگیا تو عمرؓ سے اس کی باز پرس ہوگی۔ کیا ہمارے حکمرانوں کے لئے حضرت عمر بن خطابؓ کا دور حکومت مشعل راہ نہیں ہونا چاہیے ! اسلام نے حکمرانوں کو عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو کا محافظ بنایا ہے۔

لیکن چونکہ اب، جب ہماری حکومت کراچی کی عوام کے مسائل کا حل ڈھونڈنے کے بجائے آنکھیں موندے سو رہی ہے، تب حافظ نعیم الرحمن صاحب ہی شہرِ کراچی کی اُمیدوں کا واحد مرکز ہیں۔ دعا ہے کہ حقِ تعالیٰ حافظ صاحب کو ہمت و استقامت عطا فرمائیں۔ آمین.

تم کون ہو؟

میں !

شہرِ مظلوم کی ایک آواز ہوں

بے صدا ہیں جو اُن کے لیے ساز ہوں

جن کی بستی کو پیروں سے روندا گیا

جن کے خوابوں کے مسکن کو توڑا گیا

ان کی امید ہوں، ان کا دم ساز ہوں

ان سے پوچھو کے میں ان کا ہم راز ہوں

اونچی مسند پہ بیٹھے منصفو اب سنو!

جیت حق کی ہے تم چاہے کچھ بھی کہو