منجن

 

شکیل بھائی منہ بڑا خراب ہو رہا ہے۔ کچھ بھی کھا لو سواد ہی نہیں آرہا۔ کل بھی تمھاری بھابھی نے بارش میں گرماگرم پکوڑے بنائے، پورا گھر واہ واہ کررہا تھا بس ایک میں ہی تھا جو پھیکا سا منہ لیۓ بیٹھا تھا مجال ہے ذرا بھی ذائقہ محسوس ہوا ہو۔

رضوان بھائی یہ تو ہونا ہی تھا دن رات گٹکا چباؤگے تو۔ چلو گٹکا کھا بھی لو تو کم از کم مہینے میں ایک آدھ بار دانت بھی صاف کر لیا کرو یہ دانت نا ہوں گے تو روٹی کیسے کھاؤگے ابھی تو ذائقہ نہیں پتہ چل رہا زبان کو۔ اگر ایسے ہی رہا تو دانت بھی نہیں رہیں گے۔

ہاں کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو۔ جان ہے تو جہان ہے،

لیکن شکیل بھائی یہ مجھ سے برش ورش نہیں کیا جاتا۔

او ہو ! رضوان بھائی تو تم منجن سے ہی دانت صف کر لیا کرو روز تو گلی میں آتا ہے تیس روپے کی شیشی ہے آرام نا آئے تو شیشی توڑ دو پیسے واپس۔

ناں بھئی ناں یہ تو کبھی کبھار آتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں۔ منجن سے دانت خراب ہوگئے تو میں اس پھیری والے کو کہاں سے پکڑوں گا ؟ میں تو محلے کے پرانے حکیم سے منجن لے لوں گا کم از کم کہیں غائب تو نہیں ہوتا وہ۔ پچھلے بیس سال سے یہ دواخانہ چلا رہے ہیں۔

لیکن رضوان بھائی حکیم صاحب کے پاس تو کوئی جاتا ہی نہیں علاج کروانے یہ تو ایسے ہی بیٹھے ہیں۔ ارے شکیل بھائی یہ تو وہ والی بات ہوگئی، بندر کیا جانے ادرک کا مزاہ ۔ بھیا جب ایک خوراک میں بندے کا مسئلہ حل ہو جائے گا تو کون بار بار آئے گا یہ اصلی حکیم ہیں ہمارے بزرگوں نے ان کے بزرگوں سے بڑی بڑی بیماریوں کے علاج کروائے ہیں۔

کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو رضوان بھائی! ہیرے کی پہچان جوہری ہی کرسکتا ہے۔

ارے شکیل بھائی اور رضوان بھائی اگر منجن پر تبصرہ ہوگیا ہو تو اصل منجن کی بات کریں؟ میرا مطلب ہے ووٹ کی بات کریں۔

رضوان اور شکیل کی گفتگو کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔

نعمان بچے تم کب آئے؟ اور سنا ہے بڑا پڑھ لکھ رہے ہو سمجھدار بھی تو بہت ہو، ماشاءاللہ۔

جی جی شکیل بھائی بس آپ کی دعائيں ہیں ۔ یہ بتائیں اس بار ووٹ کس کو دے رہے ہیں آپ دونوں ؟ ناں ناں ہم تو اپنی جماعتوں کو ووٹ دیں گے برسوں سے انھیں کو دے رہے ہیں۔ شکیل بھائی یہ بتائیں اتنے سالوں میں شہر کا کوئی مسئلہ حل ہوا؟ نہیں ناں!۔

ابھی آپ دونوں ایک منجن کے لیۓ اتنی سوچ بچار کر رہے تھے۔ اور سوچیں اگر ہم اسی طرح پھیری والوں کو ووٹ دیتے رہے تو اپنے مسائل کے حل کے لیۓ کس کے پاس جائیں گے۔

جو سیٹ ملنے کے بعد ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے ہمیں جانتے ہی نہیں آپ دونوں منجن پر غوروفکر کر رہے ہیں پر افسوس کراچی کے حالات اور مستقبل کی بلکل فکر نہیں آج آپ اور ہم گھٹنوں تک گٹر کے پانی میں تیرتے نظر آتے ہیں خدانخواستہ یہی حال رہا تو آنے والی نسلیں ڈوب جائیں گی۔

رضوان اور شکیل ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ نعمان جھٹ سے بولا اب یہ بتائیں۔ جماعت اسلامی کو کب سے جانتے ہیں؟

دونوں یک دم بولے ارے کئی سالوں سے جانتے ہیں اور صرف نام سے نہیں کام سے بھی۔ حافظ جی تو ہمارے علاقے میں آئے بھی تھے کیوں رضوان جب بارش کا پانی گھروں میں داخل ہوا تب گھر گھر کھانا تقسیم کیا تھا اور ابھی نالے میں جو بیوی بچوں سمیت موٹرسائيکل سوار گرگیاتھا فوراً جائے وقوعہ پر پہنچے، صرف وہی نظر آرہے تھے ٹی وی پر۔

رضوان بھی چپ نہ رہے سکا ! ارے میں تو نعمت اللہ خان صاحب کے سارے ترقیاتی منصوبوں سے واقف ہوں۔ نعمان نے ٹھنڈی آہ بھری۔ پھر بھی آپ لوگ ایسے دیانت دار اور مخلص لوگوں کا ساتھ نہیں دیتے کیوں؟۔

کیوں کہ ہمیں عادت ہوگئی ہے دھوکے کھانے کی شکیل نے دل کی بات کہ دی۔ رضوان نے بھی ہاں میں ہاں ملا دی بات تو ٹھیک ہے لیکن اس بار تو میرا دل بھی کہتا ہے کہ ترازو ہی جیتے گا۔

شکیل نے آہستہ سے کہا ویسے پکی پکی بات ہے کہ اس بار ترازو کا پلڑا بھاری ہے بچے، بوڑھے، خواتين اور تم جیسے پڑھے لکھے نوجوان بھی ترازو کی حمایت میں ہیں۔ ویسے بھی بھیا کام ہے تو نام ہے۔

چلیں شکیل بھائی اور رضوان بھائی میرا فرض تھا حق بات بتانا اب عمل آپ کی ذمہ داری ہے آخرت میں مجھ سے میرا پوچھاجائے گا اور آپ سے آپ کا۔ یاد رکھیں ووٹ ایک گواہی ہے۔ اور جھوٹی گواہی گناہ ہے۔

کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو بچے چاہے ہم کتنے ہی نیک کیوں نہ ہوں حق کی بات نہیں کی تو پھر کیسی نیکی۔؟

ماشاءاللہ ہمارے چھوٹے ہم سے زیادہ سمجھدار ہوگۓ ہیں۔

شکیل نے نعمان کا کندھا تھپتھپایا ! ارے بچے تو نے تو ہماری آنکھیں کھول دیں اب تو ووٹ اسکا جس کے ہاتھ میں ترازو یعنی کہ نعیم بھائی کو ہی دیں گے ووٹ۔ کیوں بھئی رضوان؟

ہاں ہاں کیوں نہیں کراچی کےمستقبل کی خاطر ووٹ ترازو کو ہی دیں گے اب چاہے الیکشن آج ہو یا کل۔