میرا گھر میرا پاکستان اسکیم!

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں بے گھر افراد کی تعداد دو (۲) کروڑ بتائی جاتی ہے جبکہ پاکستان کی اکثریت آبادی مشترکہ خاندانی نظام کے تحت زندگیاں گزار رہی ہیں۔ جہاں ایک گھر میں تین یا اس سے بھی زیادہ خاندان آباد ہیں۔ بینکوں کی جانب سے گھر کی خریداری کیلئے ہمیشہ قرضے دیئے جاتے رہے ہیں لیکن اس قرض کی مد میں ایک تو بہت زیادہ کاغذی کاروائی اوراس سے بڑھ کر اصل سے کہیں زیادہ رقم کی وصولی عوام کیلئے ناقابل قبول رہی ہے۔ گزشتہ حکومت نے بہت سارے فلاحی منصوبوں کا آغاز کیا اور انہیں بد عنوانی سے پاک رکھتے ہوئے خوش اسلوبی سے چلایا بھی ان میں ایک منصوبہ ایسا تھا کہ جس کا مقصد عوام کو با آسانی انکے گھر خریدنے کیلئے آسان شرائط پر قرضہ دیا جانا تھا ۔ جس کا نام میرا گھر میرا پاکستان اسکیم رکھا گیا، اس اسکیم کی خاص بات یہ تھی کہ بینک جو رقم دئیے گئے قرضے پر بہت زیادہ لیا کرتے تھے انہیں پابند کیا گیا کہ وہ بہت ہی قلیل اضافی رقم لیں اور کاغذی کاروائی کو آسان ترین بنائیں۔ قرضے کی تین مختلف درجہ بندیاں کی گئیں۔ کم آمدنی والے، متناسب آمدنی والے اور بہتر آمدنی والے شامل کئے گئے۔ اہم ترین شرط یہ رکھی گئی کے جس کے نام پر پہلے سے کوئی گھر یا رہنے کی جگہ نا ہواس اسکیم سے وہی مستفید ہوسکتا ہے۔ اس اسکیم کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ ہر وہ فرد جو برسر روزگار ہو اپنی آمدنی کے لحاظ سے اپنا گھر خرید سکے۔ حکومت نے اس بات کو بھی یقینی بنایا کے پہلے کی طرح بینک درخواست گزاروں کو کاغذوں میں نا الجھائے رکھے بلکہ جلد از جلد انہیں اس سہولت سے فائدہ پہنچائے۔ بینکوں نے بھی تقریباً حکومت کے قدم سے قدم ملایا اور عوام کو سہولیات فراہم کیں ۔ حقیقت میں یہ ایک انتہائی احسن قدم تھا جس سے شائد ابھی بہت سارے لوگوں نے فائدہ اٹھانا تھا۔

نئی آنے والی حکومت کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے انہیں سخت ترین فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں۔ جہاں موجودہ حکومت نے پچھلی حکومت کے تقریباً تمام ہی فلاحی منصوبوں کو باقاعدہ بند کردیا ہے وہیں انہوں نے میرا گھر میرا پاکستان اسکیم کو بھی فوری طور پر روک دیا ہے۔ جہاں تک دیگر منصوبوں کو روکنے کا سوال ہے تو اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوا، لیکن میرا گھر میرا پاکستان اسکیم کا تعلق ایک مخصوص طریقہ کار کے تحت سرانجام پارہا تھا جس میں گھر خریدنے والے کو بینک سے قرضہ ملنے سے پہلے کافی سارے مالی اخراجات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں خریدے جانے والے گھر کا تخمینہ لگانے کیلئے بینک کی جانب سے کوئی نمائندہ متعین ہوتا ہے جس کی مخصوص رقم دینی پڑتی ہے، خرید کیلئے پسند کئے گئے گھر کے کاغذات کی پڑتال کیلئے کسی طے شدہ قانونی ادارے سے رابطہ قائم کیا جاتا ہے جو پڑتال کی طے شدہ رقم وصول کرتا ہے اور مزید کاغذات کی کمی یا درستگی کیلئے باہمی رضامندی سے طے پانے والی رقم پر کام سرانجام دیتا ہے، اسکے علاقے کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں جانے اور وہاں کے امور کے لئے پھر سے قانونی ادارے کو رقم دی جاتی ہے، ان سارے معاملات سے خوش اسلوبی سے نکل جانے کے بعد بینک قرضے کی منظوری کو حتمی شکل دیتا ہے اور قرضہ لینے والے کو خریدکے لئے پسند کیا جانے والے گھر کے مالک کے ساتھ خرید کا معاہدہ کرنے کیلئے کہہ دیتا ہے جس کیلئے تقریباً اپنے حصے کی بیس سے تیس فیصد رقم سے بقایا ستر فیصد رقم (جو بینک نے دینی ہوتی ہے ) کا اگلے تین میں دینے کا معاہدہ طے پاجاتا ہے۔ آسان لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ قرضہ لینے والا بینک سے ملنے والے قرضے سے پہلے ہی کافی حد تک مقروض ہوچکا ہوتا ہے۔

حکومتِ وقت نے راتوں رات میرا گھر میرا پاکستان اسکیم کو فوری طور پر بند کرنے کا فیصلہ صادر کر دیا۔ جس سے وہ تمام افراد جن کے کیسس آخری مراحل میں تھے جو اپنی جمع پونجی خرید کیلئے پسند کئے جانے والے گھر کے مالک کو دے چکے تھے بری طرح سے مشکل کا شکار ہوچکے ہیں کیوں کے کچھ لوگوں کی تو طے شدہ مدت ختم ہونے والی ہے اور شائد کچھ کی تو وہ مدت بھی ختم ہوچکی ہو۔ ایسی صورتحال سے نکالنے کیلئے حکومت کو چاہئے کہ کم ازکم ایک ماہ یا پندرہ دن کا انتبہا(نوٹس) جاری کرے کے ایسے تمام لوگوں کے معاملات کو فل فور سرانجام کو پہنچایا جائے اور اسکے بعد والے جن کے ابھی معاہدے ہونا باقی ہیں انہیں روک دیا جائے تاوقتکہ اسکیم دوبارہ بحال کی جائے۔

ایسے حالات میں جب مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے ایسے لوگوں پر خصوصی رحم کھائیں جو اپنی تمام تر جمع پونجی ( اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کاٹ کر جمع کی گئی رقم )پیشگی معاہدے کی مد میں دے چکے ہیں، بینکوں کو خصوصی ہدایت جاری کریں کہ اگر کوئی قانونی پیچیدگی نہیں ہے تو انکے قرضے فوری بحال کئے جائیں۔ یہ قطعی کوئی سیاسی لوگ نہیں ہیں انکا حکومتوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ حکومت وقت اور اداروں سے خصوصی درخواست ہے کہ یہ تمام انتہائی سفید پوش لوگ ہیں جن کے پاس کوئی خصوصی ذراءع نہیں ہیں کہ وہ ارباب اختیار کے دروازے پر جاسکیں، یہ نوکری پیشہ لوگ ہیں جو اپنے طور سے پورے پاکستان میں اپنی آواز سماجی ابلاغ اور پریس کلب پر مختصر سے احتجاج کے ذریعے پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خدارا انکی دکھی آواز آپ سن لیجئے ورنہ یہ آسمانوں میں پہنچ جائے گی تو آپ کیلئے تلافی ممکن نہیں ہوسکے گی۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔