عالمی برادری کا چینی معیشت پر بڑھتا ہوا اعتماد

اس وقت دنیا میں معاشی بحالی تمام ممالک کی سب سے بڑی خواہش ہے کیونکہ وبائی اثرات اور مختلف تنازعات کے باعث عالمگیر معیشت کو شدید دباو اور چیلنجز کا سامنا ہے۔معاشی ابتری نے اگرچہ دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پزیر دونوں ممالک کو متاثر کیا ہے لیکن کم ترقی یافتہ یا ترقی پزیر ممالک سنگین طور پر اس کی لپیٹ میں آئے ہیں۔ اس حوالے سے سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے جبکہ دنیا کے دیگر کئی ممالک پر بھی ”ڈیفالٹ” کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب دنیا معاشی اشاریوں میں گراوٹ سے پریشان ہے،چینی معیشت نے رواں سال کی پہلی ششماہی میں مثبت نمو درج کی ہے اور بین الاقوامی اقتصادی ماحول کی بڑھتی ہوئی پیچیدگی،وبا کی مختلف لہروں اور دیگر غیر متوقع چیلنجوں کے باوجود مضبوط لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق 2022 کی پہلی ششماہی میں چین کی جی ڈی پی میں سال بہ سال 2.5 فیصد اضافہ ہوا، یہ امر قابل زکر ہے کہ دوسری سہ ماہی میں ترقی کی شرح 0.4 فیصد تھی۔اس اعتبار سے چین کی پیش رفت کو مشکل سے جیتی گئی ”کارکردگی” قرار دیا جا سکتا ہے۔اندرون ملک اور بیرونی جانب بھی چین نے پیچیدہ حالات کا سامنا کرتے ہوئے معاشی اور سماجی ترقی کے ساتھ وبا کی روک تھام اور کنٹرول کو عمدگی سے مربوط کیا ہے اور درپیش مختلف چیلنجوں کا مؤثر طریقے سے جواب دیا ہے۔

اس حقیقت کا ادراک بھی لازم ہے کہ چین نے ہمیشہ اپنے عوام اور ان کی زندگیوں کو اولیت دی ہے۔چینی قیادت نے ملک میں وبا کے خلاف دفاع کی ایک مضبوط دیوار تعمیر کی ہے اور وبائی صورتحال سے لڑنے میں اپنی کامیابیوں کو مستحکم کیا ہے، جس نے اب تک لوگوں کی زندگیوں اور صحت کو سب سے زیادہ تحفظ فراہم کیا ہے اور معاشی اور سماجی ترقی کے بنیادی اصولوں کو ممکنہ حد تک مستحکم رکھا ہے۔یوں با آسانی کہا جا سکتا ہے کہ چین کی انسداد وبا پالیسیوں نے نہ صرف جانیں بچائیں بلکہ معیشت کو بھی محفوظ بنایا ہے۔

کئی بین الاقوامی شخصیات نے کہا کہ چینی معیشت نے غیر مستحکم بین الاقوامی حالات سے نمٹنے کے لیے اپنی لچک اور صلاحیت کا عمدہ مظاہرہ کیا ہے۔مبصرین کے نزدیک چین کی معیشت کو منطقی اور طویل المدتی نقطہ نظر سے دیکھا جانا چاہیے کیونکہ وبا کے اثرات عارضی ہیں، جبکہ چین کی اقتصادی لچک اور صلاحیت مستقل ہے۔ چین کو ایک ٹھوس مادی بنیاد اور انتہائی وسیع مارکیٹ حاصل ہے جہاں کھپت کی بحالی، پیداوار میں اضافہ، جدت طرازی کی قوت اور میکرو پالیسیوں کے نفاذ جیسے عوامل معاشی ترقی کی کلید ہیں۔انہی خوبیوں کی بنیاد پر چین ایک نئے ترقیاتی فلسفے کو جامع طور پر نافذ کر رہا ہے، ترقی کے نئے نمونے کی تعمیر میں تیزی لا رہا ہے، اور اعلیٰ معیار کی ترقی پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ یوں اس وقت چین نہ صرف اپنے لیے بلکہ دنیا کے لیے بھی نئے مسابقتی فوائد پیدا کر رہا ہے، ترقی کے ”نئے ڈرائیورز” کو یکجا کر رہا ہے، اور اپنی معیشت کی پائیدار اور صحت مند ترقی میں مسلسل نئے محرکات کو تقویت دے رہا ہے۔ علاوہ ازیں، چین اپنے اعلیٰ سطح کے کھلے پن کو بڑھاتا رہے گا جس کی حالیہ عمدہ مثال چین کی مصنوعات کی غیر ملکی تجارت میں سال بہ سال 9.4 فیصد کا اضافہ ہوا، جو ملک کی غیر ملکی تجارت کی مضبوط لچک اور صلاحیت کی بہترین عکاسی ہے۔

اس وقت عالمی معیشت کو جمود کے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا ہے جبکہ بڑی معیشتیں اپنی پالیسیوں کو سخت کر رہی ہیں۔ غیر مستحکم اور غیر یقینی بیرونی عوامل بھی مسلسل پھیل رہے ہیں۔ ان مشکلات اور چیلنجوں کے بخوبی ادراک سے چین پر امید ہے کہ وسائل کو فعال طور پر اکٹھا کیا جائے گا اور عالمی معاشی بحالی میں اپنی عملی شرکت کو وسعت دی جائے گی۔وسیع تناظر میں تمام تر چیلنجوں اور غیر یقینی صورتحال کے باوجود چین کی طویل مدتی اقتصادی ترقی کو برقرار رکھنے والے بنیادی رجحانات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ چین اب بھی عالمی اقتصادی ترقی کا ایک اہم انجن ہے، اور عالمی برادری اب بھی چین کے اقتصادی امکانات کے بارے میں پراعتماد ہے۔ چین بھی دنیا کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئے ایک کھلی عالمی معیشت کی تشکیل اور عالمی اقتصادی بحالی میں مزید مثبت توانائی فراہم کرنے کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ مشترکہ کوششیں جاری رکھنے کا خواہاں ہے۔