کہ آنکھ ہو نہ پائے تر!

کیا ہوا ؟ چہرہ کیوں اترا ہوا ہے تمہارا ؟۔

نہیں نہیں میں ٹھیک ہوں۔ وہ اپنے کمرے کی طرف جانا چاہتا تھا میں نے اس کا بازو پکڑ لیا۔

ماں ہوں تمہارے چہرے کے رنگ سے سمجھ جاتی ہوں تمہاری کیفیت، میرے بیٹے یہاں آؤ میرے پاس بیٹھو ۔ میں نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا۔

بس وہ ایسے ہی ذرا ۔ اس نے موڈ کو خوشگوار کرنے کی کوشش کی

ہاں یاد آیا آپ تو ملک صاحب کے ہاں نہیں گئے تھے؟۔

جی ہاں وہیں سے آرہا ہوں۔

تو کیسا رہا حج فنکشن؟۔

کافی لوگ مدعو تھے کوئی نوٹوں کا ہار پہنا رہا تھا کوئی پانچ کلو مٹھائی لایا کوئی دس کلو کچھ اور لوگ دوسرے تحائف لائے۔

اچھا !

کچھ نوجوان کارڈ میں بہت خوبصورت انداز سے “حج مبارک” لکھ کر لائے تھے۔

مقررین نے تقریریں بھی کی ہوں گی حج کے فلسفہ اور ثمرات و برکات پر روشنی ڈالی ہوگی۔

ایک قاری صاحب نے بہت خوبصورت انداز میں تلاوت کی پھر کچھ نعت خواں حضرات نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ تقریر والا تو کوئی سماں نہیں تھا وہاں ہاں البتہ جب میں نے کچھ بات کہنا چاہا تو۔

تو کیا ؟ پریشان کیوں ہو گئے بیٹا !

چھوڑیں ماما! اس زمانے میں کون عبادت کی روح یا حقیقی مقصد پر غور کرتا ہے؟

آپ نے بات نہیں کی ؟

ماما میں یہ کتاب ساتھ لے گیا تھا اور اس کا یہ پیراگراف پڑھ کر سنانا چاہتا تھا مگر سبھی کہنے لگے یہ کتابی باتیں ہیں انہیں چھوڑو یہ کتابی باتیں ہمیں سمجھ نہیں آنے کی۔

کون سا پیراگراف تھا پڑھ کر سناؤ ذرا مجھے بھی۔

میں پڑھتا ہوں،

تم نسلی مسلمانوں کا حال اس بچے کا سا ہے جو ہیرے کی کان میں پیدا ہوا ہے۔ ایسا بچہ جب ہر طرف ہیرے ہی ہیرے دیکھتا ہے اور پتھروں کی طرح ہیروں سے کھیلتا ہے تو ہیرے اس کی نگاہ میں ایسے ہی بے قدر ہو جاتے ہیں جیسے پتھر۔ یہی حالت تمہاری بھی ہے کہ دنیا جس نعمت سے محروم ہے۔ جس سے محروم ہو کر سخت تکلیفیں اور مصیبتیں اٹھا رہی ہے اور جس کی تلاش میں حیران و سرگردان ہے وہ چیزیں تمہیں مفت میں بغیر کسی تلاش و جستجو کے صرف اس وجہ سے مل گئیں کہ خوش قسمتی سے تم مسلمان گھروں میں پیدا ہوئے ہو۔ وہ کلمہ توحید جو انسانوں کی زندگی کے تمام پیچیدہ مسئلوں کو سلجھا کر ایک صاف سیدھا راستہ بتا دیتا ہے، بچپن سے تمہارے کانوں میں پڑا۔ نماز اور روزے کے وہ کیمیا سے قیمتی نسخے جو انسان کو حیوان سے انسان بناتے ہیں اور انسانوں کو خدا ترس اور ایک دوسرے کا بھائی، ہمدرد اور دوست بنانے کے لئے جن سے بہتر نسخے آج تک دریافت نہیں ہو سکے ہیں، تم کو آنکھ کھولتے ہی خود بخود باپ دادا کی میراث میں مل گئے۔ زکوٰۃ کی وہ بے نظیر ترکیب جس سے محض دلوں ہی کی ناپاکی دور نہیں ہوتی بلکہ دنیا کے مالیات کا نظام بھی درست ہو جاتا ہے جس سے محروم ہو کر تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ دنیا کے لوگ ایک دوسرے کا منہ نوچنے لگے ہیں تمہیں وہ اس طرح مل گئی ہے جیسے کسی حکیم حاذق کے بچے کو بغیر محنت کے وہ نسخے مل جاتے ہیں جنہیں دوسرے لوگ ڈھونڈتے پھرتے ہیں اسی طرح حج کا وہ عظیم الشان طریقہ بھی جس کا آج دنیا بھر میں جواب نہیں ہے، جس سے زیادہ سے طاقتور ذریعہ کسی تحریک کو چاردانگِ عالم میں پھیلانے اور ابدالاباد تک زندہ رکھنے کے لئے آج تک دریافت نہیں ہو سکا ہے جس کے سوا آج دنیا میں کوئی عالم گیر طاقت ایسی موجود نہیں ہے کہ آدم کی ساری اولاد کو زمین کے گوشے گوشے سے کھینچ کر خدائے واحد کے نام پر ایک مرکز پر جمع کر دے اور بے شمار نسلوں اور قوموں کو ایک خدا پرست، نیک نیت، خیرخواہ برادری میں پیوست کر کے رکھ دے۔

ہاں ایسا بےنظیر طریقہ بھی تمہیں بغیر کسی جستجو کے بنا بنایا اور صدہا برس سے چلتا ہوا مل گیا مگر تم نے ان نعمتوں کی کوئی قدر نہ کی کیونکہ آنکھ کھولتے ہی یہ اپنے گھر میں ہاتھ آ گئیں۔ اب تم ان سے بالکل اسی طرح کھیل رہے ہو جس طرح ہیرے کی کان میں پیدا ہونے والا بچہ ہیروں سے کھیلتا ہے اور انہیں کنکر پتھر سمجھنے لگتا ہے۔ اپنی جہالت و نادانی کی وجہ سے جس بری طرح تم اس زبردست دولت اور طاقت کو ضائع کر رہے ہو اس کا نظارہ دیکھ کر دل جل اٹھتا ہے۔ کوئی کہاں سے اتنی قوت برداشت لائے کہ پتھر پھوڑوں کے ہاتھوں جواہرات کو ضائع ہوتے دیکھ کر ضبط کر سکے ؟

میرے عزیزو ! تم نے شاعر کا یہ شعر تو سنا ہوگا کہ:

خرِ عیسیٰ اگر بمکّہ رَود

چوں بیا ید ہنوز خر بات

نااہل کمینے کی اصلاح نہیں ہوسکتی اگرچہ اچھی سے اچھی صحبت میں رہے،

یعنی گدھا خواہ عیسی علیہ السلام جیسے پیغمبر ہی کا کیوں نہ ہو مکہ کی زیارت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اگر وہ وہاں ہو آئے تب بھی جیسا گدھا تھا ویسا ہی رہے گا۔

 ہوں ! تو یہ باتیں نہیں سننا چاہیں ان لوگوں نے !

جی ہاں !

اور یہ ، یہ تمہاری آنکھ سے کیا ٹپکا؟  اتنا موٹا آنسو۔

میرے لال ! ماں نے اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ لینا چاہا مگر پھر یاد آیا وہ اب دس سال پہلے والا ننھا بچہ نہیں ہے لہذا اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔

ماما جی ! سارے لوگ ایک سیدھی راہ کے بجائے ہزار تکلفات، بدعات، تصنع، رسمیں اور جانے کیا کیا اختیار کر لیتے ہیں۔ کیوں ؟ کیوں ؟ آخر کیوں ؟۔

میرے بچے! میرے مجاہد! دلوں کو بدلنے کا اختیار صرف الله کے پاس ہے۔ آپ دکھی نہ ہو بلکہ ان سب کے لئے دعا کرو ۔ میں نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنی شروع کر دیں۔

اور بیٹا ! وہ ذرا گنگنا دو اپنی پسندیدہ نظم

نظم کیا گنگناتا وہ تو جیسے مہینوں کا رت جگا سہ کر آیا تھا یا پھر ماں کی گود اور ماں کی انگلیوں کا لمس تھا پل دو پل میں نیند کی آغوش میں چلا گیا اور پھر جانے کب تک اس کی ماں اس کے معصوم چہرے اور نوخیز ننھی منی داڑھی کی بلائیں بھی لیتی رہی اور گنگناتی بھی رہی،

رکو نہیں تھمو نہیں کہ معرکے ہیں تیز تر،

رکو نہیں تھمو نہیں۔۔۔

نئے سرے سے چھڑ چکی جہاں میں رزمِ خیر و شر،

ذرا بھی تم ڈر گئے، رکے کہیں جو لمحہ بھر،

طویل ہو نہ جائے پھر تمہارا یہ کٹھن سفر،

نہ کوئی قلب مطمئن، نہ کوئی روح پر سکوں،

خیال ہیں گرہ گرہ، عقیدے ہیں سو منتشر،

عقیدے ہیں سو منتشر۔۔۔

عقیدے ہیں سو۔۔۔

ہزار زخم تازہ سے پگھل رہے ہیں گو جگر،

مجاہدوں کی شان ہے کہ آنکھ ہو نہ پائے تر،

کہ آنکھ ہو نہ پائے تر،

کہ آنکھ ۔۔۔۔ ہو۔۔۔ نہ پائے۔۔۔۔ تر،

ہو۔۔۔ نہ ۔۔۔ پائے تر۔۔۔