ہماری خواتین اور اسلام‎‎

 

تمام دنیا متفق ہے کہ زمانہ جاہلیت میں خواتین کو بنیادی انسانی حقوق دینے کا بھی روادار نہ سمجھا جاتا تھا، اور تو اور حق زندگی چھین لیا جاتا۔ لیکن یہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اسلام نے جہاں۔ تکریم نسواں کے اور بہت سے اصول و قوانین بنائے، مثلا حق زندگی، بہترین پرورش کی ترغیب، حق جائیداد، کمانے کا حق، حدود اللہ کے دائرے میں خرچ کرنے کا حق، گویا اس کی عزت، جان، مال کی تحفظ وبقا کے لئے واضح تعلیمات دیں۔ وہیں بناؤ سنگھار کے جاہلی طریقوں مثلا کھلے منہ اور کھلے سینے پھرنے سے منع کر دیا، نامحرموں سے یوں گفتگو پر پابندی لگا دی جس سے فساد پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ لیکن اسلام کی ان آفاقی تعلیمات کو ہم نے گھر کی مرغی سمجھ کر پرکاہ اہمیت نہ دی، ہم نے ‘قدیم جاہلیت’ کو تو برا بھلا ضرور سمجھا، مگر اس کے ساتھ ساتھ جدید جاہلیت کے پر کشش جھانسے میں بھی آ گئے، ستم بالائے ستم یہ کہ اس جدید جاہلیت کے حق میں اسلام سے دلائل پیش کرنے کی نا پاک جسارت سے بھی باز نہ آئے۔

مزید المیہ دیکھیں کہ ہم نے عورت کو بنیادی انسانی حقوق تو جانے دیے یا نہیں، لیکن عورت کی مادر پدر آزادی کے فروغ میں نہ چاہتے ہوئے بھی معاون بن گئے، ہم نے بیٹیوں کو بحثیت صنف نازک تربیت دینے کے سخت کوش بنا دیا، ہم نے گھر کی ملکہ کی حیثیت کو کمتر سمجھ کر معاشی خودانحصاری کے لئے طاق کر کے قوام کے دوبدو لا کھڑا کر کیا، جس سے شعوری اور بعض دفعہ لا شعوری طور پر “امیر اور مشاورت”۔ جو کسی بھی ادارے کو چلانے کے لئے اسلامی نظام کی بالادستی کے عناصر تھے۔ کے نظام کو سخت زد پہنچی، لیکن باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ‘لبرل ازم’ کے پروپیگنڈے سے زیادہ ہماری اپنے غلط رسم و رواج، روایات، ہندوانہ ذہنیت نے عورت کو باغی بنایا، عورت گھریلو سیاست سے تنگ آ کر غلط نظریات کا آلہ کار بن گئی۔

اگر غیر جانبداری سے عورت کی عائلی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو عورت کو بہت خال ہی وہ ماحول میسر ہے جو اسلامی معاشرت کا صحیح عکاس ہو، عموماً بیاہنے کے ساتھ ہی عورت کی زندگی کا ایک سخت باب شروع ہو جاتا ہے، دیگر بہت سے عوامل کے ساتھ ساتھ حبس زدہ اور گھٹن زدہ نیز کشاکش پر مبنی اس ماحول سے نجات حاصل کرنے کے لئے بھی عورت کئی ‘باطل نظریات’ سے متاثر ہوئی، لیکن اسلامی معاشرت کے سوا کوئی بھی حل عورت کو درپیش ان مسائل کا دیرپا حل ثابت نہ ہو سکا۔

لہٰذا ضرورت ہے وہ شعور بیدار کرنے کی جو قدیم اور جدید ہر دو جاہلیت کے ہتھکنڈوں کو سمجھ سکے، بھولئے نہیں کہ بیٹی کو زندہ درگور کر دیناجاہلیت ہے، خواہ زمین میں گڑھا کھود کر کی جائے یا شکم مادر ہی میں زندگی کا حق چھین لیا جائے۔ بے حجابی جاہلیت ہی ہے خواہ قدیم ہو یا جدید۔ بیویوں کے ساتھ غلط برتاؤ اور ‘نظریہ ضرورت’ کے تحت ان کے نازک جذبات سے محض دل لگی کرنا کل بھی قابل نفرین تھا اور آج بھی بیوی کے حقوق کھانا اور بے وقعت سمجھنا ‘جاہلیت’ ہی ہے۔ بہنوں کو وراثت میں حق نہ دینا کل بھی غلط تھا اور آج بھی۔

آئیے، خواتین کو ان کے حقوق دینے کے لئے سرگرم عمل ہو جائیں، بہنوں اور بیٹیوں کو فرائض کی ادائیگی کے لئے تیار کریں، ایثار، قربانی، اخوت، رواداری، صبروتحمل جیسی اعلیٰ اسلامی اقدار ان کی شخصیت میں سمو دیں، بیٹوں کی تربیت یوں کریں کہ وہ بیک وقت ماں، بہن، بیوی کے لئے بہترین بیٹا، بھائی اور شوہر ثابت ہو۔ خدارا، اقوام عالم کے سامنے عائلی زندگی کے مثالی نمونے پیش کیجئے،اسلام کا صحیح چہرہ دکھائیے، تا کہ عورت ببانگ دہل اپنی قابل تکریم نسوانی حیثیت کا اقرار کر سکے، ہر باطل نظریے، حقوق نسواں کے دعوے داروں کو منہ توڑ جواب دے سکے کہ ہمیں مصنوعی حقوق نہیں چاہئیں، ہم اپنی حیثیت سے مطمئن و خوش ہیں۔

یقیناً یہ سب تبھی ممکن ہے جب ہم اپنی بیٹیوں کے سامنے عائشہ صدیقہ رضہ اللہ تعالیٰ عنھما کی ذہانت کو رول ماڈل کی طرح پیش کر کے انہیں اس تعلیم کے حصول کے لئے تیار کریں گے، ہاں ہم خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما کی مثال دیتے ہوئے ‘حق کمائی اور خرچ’ کے ضوابط بھی سکھائیں گے، صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما سی شجاعت اور فراست بھی پیدا کریں گے، سمیہ رضی اللہ کی طرح استقامت سے باطل نظریات کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی تیار کریں گے یہاں تک کہ اس راستے میں جان ہی کیوں نہ چلی جائے، خدیجہ واسماء رضی اللہ کی طرح تربیت اولاد کی فکر کریں گے، ہاں ہماری تاریخ تو ہمیں ایسی وسعت قلبی اور تکریم نسواں کے لئے تیار کرتی ہے کہ وقت کا خلیفہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیوی کو مسجد میں نماز کی ادائیگی سے اپنی صوابدید پر روکنے کی جراءت نہیں کر پاتا، بیویوں کے حق میں ایسا خوبصورت اور رومانوی نمونہ دیتی ہے کہ خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پہلی بیوی خدیجہ سے محبت کا برسر عام اظہار کرتے اور اس میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ یا خوف نہ کرتے، عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی اہلیہ کی عیادت کے لئے غزوہ میں شرکت سے باز رہتے ہیں، خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے موقع پر بلا جھجھک اور بلا دھڑک ام المؤمنین سلمیٰ رضہ کے مشورہ پر عمل کرتے ہیں، یقینا اسلام کے اس دلکش پہلو کو اقوام عالم کے سامنے پیش کرنا بحثیت ‘امت وسط’ ہم پر قرض ہے، جس کی ادائیگی کے بغیر دنیا و آخرت کی فلاح مشکوک ہے، اللہ ہمیں اپنے فرائض کو سمجھنے والا بنائے،اور حقوق کی ادائیگی کے ضمن میں ‘شح نفس’سے محفوظ رکھے، امین۔