یہ غلطیاں آخر کب تک؟

یہ ذکر ہے 20 ویں صدی کے اختتامی سالوں کا جب دو تہائی اکثریت سے منتخب ہونے والے جناب میاں نواز شریف پاکستان کے بڑے صنعتی شہر فیصل آباد میں کھلی کچہری ذریعے عوامی مسائل حل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں، اسی دوران ان کے ہم زلف اور معروف سیاستدان جناب میاں شیر علی انہیں ایف ڈی اے کے افسران کے بارے میں اپنی شکائت سے آگاہ کرتے ہیں ، میاں صاحب ان افسران کو میاں شیر علی کا مسئلہ حل کرنے کا حکم صادر فرماتے ہیں، مگر متعلقہ افسران جناب وزیر اعظم کو یہ کہنے کی جسارت کر تے ہیں کہ سر یہ کام قانون کے مطابق نہیں ہے، جس پر بحث و مباحثہ کے نتیجے میں میاں صاحب بادشاہ سلامت کے انداز میں کھلی کچہری میں ہی ان افسران کو ہتھکڑیاں لگواکر پابند سلاسل کروا دیتے ہیں، وقت کا پہیہ تھوڑا آگے چلتا ہے اور پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب میاں صاحب خود قانون کے تحت اپنے اختیار استعمال کرنے کے جرم میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے موجود ہوتے ہیں، بعد ازاں قید تنہائی کے دوران اپنے محاسبہ کرتے ہیں اور پھر گھر کے قریبی لوگوں ذریعے ایف ڈی اے کے افسران سے معافی مانگی جاتی ہے، قدرت کا نظام پھر حرکت میں آتا ہے اور میاں صاحب جنہیں 21 سال قید ہوچکی ہوتی ہے، وہ جیل سے سعودی عربیہ کی سرزمین پر لینڈ کرتے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شریف خاندان غلطیوں سے سیکھتا اور ایسی خطرناک غلطیوں کو دہرانے کی کوشش نہ کی جاتی جو عین ممکن ہے ان کی نظر میں چھوٹی ہوں مگر نتائج کے اعتبارسے بہت بڑی ہوتی ہیں، لیکن شائد نہیں کیونکہ ایک بار پھر کم و بیش ربع صدی کے بعد میاں شہباز شریف کی حکومت ہے اور اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے دیگر پانچ بینکوں کے ساتھ مل کر اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے، یعنی وہ کام جس کے کرنے کا حکم جناب قائد اعظم محمد علی جناح نے 1948 میں اسٹیٹ بنک کے افتتاح کے موقع پر ان الفاظ کے ساتھ حکم دیا تھا اسٹیٹ بنک اسلامی اصولوں پر نظام معیشت قائم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے، مگر پھرقائد رہے اور نہ قائد کے احکامات، بہرحال فرزندان اسلام نے اسلامی نظریاتی کونسل میں اس سلسلے میں 88 درخواستیں دائر کیں اور 14 نومبر 1991 کو وفاقی شرعی عدالت نے ایسے تمام قوانین جو سود کو تحفظ فراہم کرتے تھے کلعدم قرار دے دیا، مگر اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرکے، عمل درآمد کو موقوف کردیا گیا۔

بہرحال آٹھ سال بعد سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھ کر ایک بار پھر بال حکومت کے کورٹ میں ڈال دی ، اور حکومت نے نظر ثانی کی اپیل کے ذریعے دوبارہ عدالت کو مصروف کردیا، مرضی کے جج مرضی کی عدالتیں اور پھر یوں ہوا کہ 24 جون 2002 کا وہ سیاہ ترین دن تھا جب سپریم کورٹ نے 1999 کا اپنا ہی فیصلہ اور 1991 میں دیا گیا وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر کیس کو اسی شرعی عدالت میں ازسر نو تحقیق کے لیے بھیج دیا یعنی قوم کو پھر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ، یوں ایک بار پھر 20 سال گزرگئے، اور 28 اپریل 2022 کو ایک بار پھر وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ دیا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اس فیصلے پر عمل کرنے کے لیے سنجید ہ اقدامات کرتی مگر صرف 02 افراد کی اکثریت سے قائم اس حکومت نے وہی پرانی روش اختیار کی اور ایک بار پھر سرکا ر کی سپرپرستی میں سپریم کورٹ میں اس کیس کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، یعنی سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ حکومت وقت نے ماضی سے سبق نہ سیکھنے کا فیصلہ کرکے اللہ رب العزت سے جنگ کرنےکا اعلان کیا ہے ، مجھے یاد ہے کہ جن دنوں ہم ایک لفنٹر ٹائپ زندگی بسر کررہے تھے، میرا دوست نعمان ایک دن کہنے لگا چوہدری تمھیں معلوم جب اللہ پاک کسی کو بے عزت کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو کیا کرتے ہیں، نہیں، میں نے جواب دیا، چوہدری اللہ خود زمین پر آکر اسےبے عزت نہیں کرتے بلکہ مجھے اور تمھیں اس کے پاس بھیج دیتے ہیں اور ہم اس کی بے عزتی شروع کردیتے ہیں، اس وقت تو بات قہقوں میں اڑ گئی تھی لیکن اب یقین آگیا ہے کہ واقعی ایسا ہوتا ہے جب اللہ ہم سے ناراض ہوتے ہیں توہمارا ٹکراوایسے لوگوں سے ہوجاتا ہے جو ہماری زندگی عذاب بنانے کی کوشش کرتے ہیں، ہمارے سکون کو غارت کردیتے ہیں، ہم ان کو اپنا دشمن سمجھ رہے ہوتے ہیں، لیکن درحقیقت یہ ہمارے اپنے ہاتھ کی کمائی ہوتی ہے

ہم سے غلطیا ں سرزد ہوتی ہیں جو ہمارے زوال کا باعث بنتی ہیں، آنےو الے دنوں میں آپ دیکھیں گے حکومت وقت کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، ایسے اقدامات حکومت سے سرزد ہوں گے، جن سے حکومت کی زندگی اجیرن ہوجائے گی، یہ عذاب، سزائیں عمران خان کی صورت میں، اتحادیوں کی ناراضگی کی صورت میں، بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی طرف سے دباو، اپنے لوگوں کی کرپشن، لندن سے ہدایات، لیک ویڈیوز کی صورت میں ہوسکتی ہیں۔

عین ممکن ہے کہ حکومت ختم نہ ہو، کیونکہ اللہ جب کسی کو سزا دیتے ہیں تو عام طور پر اس سےعہدہ ، حکومت واپس نہیں لیتے، بلکہ حکومت کے اندار رہتے ہوئے ذلیل کرتے ہیں، سب کچھ ہوتا ہے لیکن بندے پر عرصہ حیات تنگ ہوجاتا ہے، فرعون ،نمرودکی مثال ہمارے سامنے ہے، حکومت کے ہوتے ہوئے اللہ پاک نے ذلیل کیا۔ بہرحال ضرورت اس امر کی ہے حکومت ہوش کے ناخن لے، وہ تمام جماعتیں جو مذہب کے نام پر سیاست کرتی ہیں اور جو نہیں بھی کرتیں سب اکھٹا ہوکر سپریم کورٹ میں اس کیس کا دفاع کریں تاکہ بارگاہ رب العزت میں سرخ رو ہوسکیں، جناب میاں شہباز شریف صاحب سے بھی گزارش ہے کہ برائے کرم ماضی کو یاد رکھیں اور غلطیوں کو نہ دہرائیں ہوسکتا ہے ، اب کی بار معافی کا موقع نہ مل سکے۔

حصہ
mm
بلاگر پنجاب کالج سے کامرس گریجویٹ ہونے کے ساتھ ، کمپیوٹر سائنسز ،ای ایچ ایس سرٹیفیکٹس  اور سیفٹی آفیسر  ڈپلومہ ہولڈر ہیں۔فی الوقت ایک ملٹی اسکلڈ پروفیشنل ہیں۔علاہ ازیں بائی نیچر صحافی ہیں۔