عافیہ ہم شرمندہ ہیں‎‎

اعمال کی سزا ہے ، ہےکہ لیڈر کا فقدان

حجاج سے بھی خالی ہیں ملت کے ایوان

بے غیرتی کی انتہا تو یہ ہے کہ قوم کی بیٹی کو سیاست کے حصول کا ترپ پتہ بنا ڈالا گیا۔ قوم نہیں جانتی ، سیاست کے داؤ پیچ۔ لیکن قوم کی بیٹی کے مسئلے پر کسی مصلحت کا شکار بھی نہیں ہونا چاہتی۔ حقیقی ماں تو منتظر نگاہوں اور ملت کی اجتماعی بے حسی کی تاب نہ لاتے ہوئے رخصت ہو گئی ہے لیکن ملی و روحانی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی ایک کثیر تعداد کے جذبات میں ایک آتش فشاں برپا کر گئی ہے۔ حتیٰ کہ قلم سے چنگاریاں نکلنے کو بے تاب ہو ہو جا رہی ہیں۔ دماغ کسی نقطے پر یکسو نہیں ہو پا رہا۔ زبانیں اُمت کی غیرت کو للکار رہی ہیں، ان حکمرانوں کی غیرت کو، جو ہوس اقتدار میں اندھے ہو چکے ہیں۔ بے شک، عرب کی بیٹی کو تو سمندر میں لوٹا اور غلام بنایا گیا، بیچا نہیں گیا تھا۔ اسی لئے اس وقت کے حجاج نے بھی بحری لٹیروں سے انتقام لینے میں دیر نہ لگائی، اس نے بیٹی کا سودا کرنے کی بجائے غیرت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہادری سے لڑتے ہوئے اسے چھڑا لانے کا فوری حکم جاری کیا۔ افسوس یہاں تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے۔

برا نہ مانئے، ہم وہ قوم ہیں جس نے قوم کی بیٹی کی فروخت پر بھی جرنیل کو بر طرف نہ کیا، سر قلم کروا ڈالنے والی حرکت کے بعد بھی وہ پاکستان کا چیف رہا،جرنیل ،صدر، آمر رہا۔ ہم نے وہ حکمران ایوانوں میں بھجوائے جنہوں نے عافیہ کی رہائی کے سنہرے موقعوں کو صرف آقاؤں کی خوشنودی کے لئے گنوایا۔ بحثیت قوم ہم طاغوت کی بندگی کر رہے ہیں۔

تف ہے ہم پر۔ ہم چڑیوں کے ان غولوں جیسے بھی نہ ہو چکے جو غاصب بلی کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ غاصب کو غصب کے فعل کے بعد آڑ میں رہنا پڑتا ہے۔ ہم اس مرغے کی غیرت سے بھی متاثر نہ ہوئے جو اپنی مادہ پر غلط نظر کو گوارا نہیں کرتا، ہم جانوروں کے معیار سے بھی گر کر اسفل السافلین کے درجے کو پہنچ چکے ہیں۔

میں پوچھتی ہوں حکمرانوں سے۔ کیا تم اپنی بہن کو ڈاکوؤں کے چنگل میں دیکھ کر اپنی جان بچانے کی فکر کرو گے۔ کیا والدین کی رضا پوچھنے جاؤ گے۔ کیا عزت کو اٹھالے جانے والوں کی نظروں میں معتبر بننے کی لگن ہی تم پر سوار رہے گی۔ کیا اپنے گناہوں کی تلافی نہ کرو گے اک نایاب و قابل فخر، سرمایہ ملت مگر مظلوم بہن کو بازیاب کروا کر۔ کیا تم چاہتے ہو کہ بغاوت کے پھریرے لہرا دیے جائیں، اُمت کے حساس نوجوان کی جانب سے۔ کیا تم اس سیلاب کا سامنا کر سکتے ہو جو بس آیا ہی چاہتا ہے۔ کیا تم دیکھتے ہو کہ بہن کو غاصب کے چنگل سے چھڑایا تو تمھاری جان خطرے میں پڑ جائے گی، تمھارا اقتدار ملیامیٹ کر دیا جائے گیا، قوم پر مصائب کے پہاڑ توڑے دیے جائیں گے، اسے زر خرید غلام بننے پر مجبور کر دیا جائے گا۔

حکمرانو۔ زندگی اور موت کا مالک اللہ ہے، اقتدار وہی پائیدار ہے جس کا سر چشمہ رب العالمین ہے، قوم تو پہلے ہی داخلی و خارجی مصائب میں گھری پڑی ہے۔ کیا اس پر جنگ کے مسلط کر دیے جانے سے ڈرتے ہو۔ جان لو قوم ذلت کی موت پر عزت کی موت کو ترجیح دینے والی ہے۔ غلام بنا دیے جانے سے ڈرتے ہو تو جان لو کہ صدیوں سے غلامی کا تسلسل قیام پاکستان کے بعد بھی جاری رہنے کے بعد یہ قوم اب غیروں کی چاکری سے تھک چکی ہے، وہ خود سوچنا، سمجھنا اور عمل کرنا چاہتی ہے، اپنے پروں کو قید غلامی سے چھڑانا چاہتی ہے۔

خبردار رہو کہ وہ وقت قریب آ چکا ہے جب غلامی کے جال کو یکجا ہو کر توڑ دیا جائے گا، توڑنے پر قادر نہ ہو سکے تو مل کر جال سمیت اڑ جائیں گے۔ تب شکاری کف افسوس ملنے کے سوا کچھ نہ کر سکے گا۔

کہو اب کیا ارادہ ہے میرے حکمرانو؟ کیا سرحدی عقابوں کی پروازوں کو روکنا ممکن ہو گا تمھارے لئے!