قربانی کو ضائع ہونے سے بچائیں!

ماہِ ذی الحجہ کا شمار شہر حرم یعنی حرمت والے مہینوں میں ہوتا ہے۔ متعدد احادیث مبارکہ میں اس ماہ کی اہمیت و فضیلت کو بیان کیا گیا ہے۔ اس ماہ میں کئی سارے اعمال انجام دیے جاتے ہیں اور ان اہم ترین اعمال میں قربانی بھی ایک ہے۔ قربانی ہر اس شخص پر واجب ہے جو شرعی اصطلاح کے مطابق صاحبِ نصاب (اس کے متعلق مزید تفصیل اہلِ علم سے پوچھ لینی چاہیے) ہو۔

ایک تو ہمارے یہاں کافی سارے مسلمان صاحبِ نصاب ہونے کے باوجود قربانی نہیں کرتے؛ دوسرے جو کر رہے ہوتے ہیں ان میں سے کئی سارے کچھ کمزوریوں کی وجہ سے اپنی قربانی کو ضایع کردیتے ہیں۔ قربانی کی اہمیت و فضیلت کو واضح کرنے کے لیے ذیل میں چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں۔

۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان ایام میں انسان کا کوئی عمل قربانی سے زیادہ محبوب نہیں ہے۔

۲۔ جو شخص خوش دلی کے ساتھ ثواب کی نیت سے قربانی کرے گا تو وہ قربانی اس کے لیے دوزخ میں جانے سے آڑ اور رکاوٹ بن جائے گی۔

۳۔ قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے بندے کے نامۂ اعمال میں نیکی لکھی جاتی ہے۔

مذکورہ احادیث سے یہ بات واضح ہے کہ قربانی نہایت ہی عظیم عمل ہے چنانچہ اس عمل کا کامل اجر لینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اہلِ علم سے رجوع کر کے قربانی کے مسائل کو سیکھ لیں۔ دراصل شیطان انسان کا واضح اور پکا دشمن ہے۔ اس کی ہر دم یہ کوشش رہتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح بندے کے نیک عمل کو ضایع کیا جائے۔ اس لیے شیطان انسان کو ریاکاری وغیرہ جیسے گناہوں میں مبتلا کرکے اس کے اعمال کو برباد کردیتا ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ کسی بھی نیک عمل کی قبولیت کے لیے اخلاص کا ہونا ضروری ہے۔ اخلاص کا آسان مفہوم یہ ہے کہ بندے کے ہر نیک عمل کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو۔ بسا اوقات ہم لوگوں کو دکھانے کے لیے قربانی کا جانور لے رہے ہوتے ہیں۔ یا پھر محلے کے کچھ امیر لوگ یہ دیکھتے ہوئے قربانی کا جانور خریدتے ہیں کہ اگر ڈاکٹر صاحب نے دو لاکھ کا جانور لیا ہے تو مجھے اس سے زیادہ کا لینا ہوگا۔ یاد رکھیے! قربانی محض گوشت کھانے اور بڑا جانور ذبح کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ قربانی دراصل اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے حصول کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسی قربانی کی کوئی حیثیت نہیں ہے جو لوگوں کو دکھانے یا ان کی واہ واہ لینے کے لیے کی گئی ہو۔

قربانی کا جانور لینے سے پہلے اس کی عمر وغیرہ کے متعلق جان لینا نہایت ضروری ہے۔ اسی طرح ایسے عیوب جن کے ہوتے ہوئے جانور کی قربانی نہیں کی جاسکتی، ان کا علم ہونا بھی ناگزیر ہے۔ ہمارے بعض سادہ لوح مسلمان یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تو نیتوں کو دیکھتے ہیں نا… اس لیے اس طرح کے شرائط کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ حالانکہ نیک عمل کی قبولیت کے لیے نیت کی درستگی کے ساتھ ساتھ اس عمل کا شریعت کے مطابق ہونا بھی ضروری ہے۔

ذبح کے معاملے میں بھی نہایت ہی لاپروائی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ کسی بھی جانور کو حلال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ذبح کرنے والا مسلمان ہو۔ اگر کسی شخص کے اسلام میں شک ہے یا پھر اس کے عقائد درست نہیں ہیں تو ایسے شخص سے جانور ذبح کروانا درست نہیں ہے۔

مختصر یہ کہ قربانی کرنے والے شخص کو ابتدا سے لے کر انتہا تک قربانی کے بنیادی مسائل سیکھ لینے چاہئیں۔ نیز ان مسائل کو ہلکا سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے تاکہ جس مقصد کے حصول کے لیے قربانی کی جارہی ہے وہ بندے کو حاصل ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے نیک اعمال کو اپنی بارگاہ میں مقبول و منظور فرمائے۔ آمین