فلسفہ قربانی 

راحمہ گلی میں رابعہ خالہ کی عیادت کر کے باہر آئی تو دیکھا راحمہ کے گھر کے آگے رش لگا ہوا تھا -اف خدایا یہ تو گاڑی سے گائے اتار رہے ہیں وہ تیز تیز قدم اٹھاتی گھر میں داخل ہوئی بے چینی راحمہ کے چہرے سے عیاں تھی -جبکہ بچے دوڑ دوڑ کر خوشی میں پانی اور دوسری چیزوں کا بندوبست کر رہے تھے-
نجم جیسے ہی گھر میں داخل ہوا راحمہ نے سوالات کی بوچھاڑ کردی- رک جاؤ چھری تلے دم تو لو تم تو نون اسٹاپ بولے جا رہی ہو-
” ہاں تو پریشانی کی بات ہے نا ابھی تو ابو کے بائی پاس کا قرضہ ادا کرنا تھا , راحیم کی میڈیکل کی فیس بھی بھرنی تھی۔۔۔۔ کہیں تم نے کسی سے ادھار تو نہیں لے لیا” راحمہ نے ایک اور سوال جڑ دیا
راحمہ۔….۔راحمہ نہیں لے پیسے میں نے ادھار ،تم جانتی ہو نا تین سال پہلے دفتر کے جمیل صاحب نے مجھ سے قرض لیا تھا ان کو اپنی سسرال کی طرف سے وراثت ملی تو انھوں نے واپس کردیا بس اتنی سی بات تھی _راحمہ کے لہجے سے کچھ اطمینان ظاہر ہوا-
نجم اور راحمہ کے چار بچے تھے نجم اچھی پوسٹ پر تھا لیکن یہ لوگ پچھلے دو سال سے قربانی نہیں کر پا رہے تھے-
نجم کے ابو کی بیماری میں پیسہ پانی کی طرح اٹھ گیا تھا اسی میں کچھ قرض بھی لینا پڑا تھا لیکن نجم اور راحمہ کی تمام کوششوں کے باوجود داعی اجل نے نجم کے ابو کو مہلت زندگی نہ دی –
” اوہ ۔۔۔! ڈیپ فریزر بھی تو نیا آ نا تھا- فریزر کولنگ صحیح نہیں کر رہا ہے ” راحمہ کو اچانک پھر یاد آیا
نجم جو اب بری طرح سے تھک چکا تھا_
“دیکھو راحمہ عید بالکل قریب آ گئی ہےعید سے پہلے کوئی چھٹی بھی نہیں آرہی تم پلیز اپنے بھائی کو بلالو اور ڈیپ فریزر صحیح کروا لو اب تو نیا نہیں آسکتا”
نجم نے جواب دیا ۔
“ہاں بس آگئی میرے بھائی کی یاد ”
راحمہ نے نجم کی طرف غصّے سے دیکھتے ہوئے کہا
راحمہ اچھی طرح اپنے بھائی کی ذمہ داریوں کو جانتی تھی اسی وجہ سے بھائی سے کوئی کام کہتے ہوئے راحمہ کو جھجھک آتی تھی تھی- “چلو خیر ہے فریزر چل تو رہا ہے لولا لنگڑا ہی سہی”
راحمہ نے اپنے آپ کو تسلی دیتے ہوئے سوچا
” ایک تو گورنمنٹ کو پانی کی لائنیں بھی ابھی ڈلوانی تھی ہر طرف کھدائی ہورہی ہے ہر طرف مٹی ہی مٹی ہے”
نجم آ فس جانے کے لیے گاڑی نکالتے ہوئے بڑبڑارہا تھا-
علاقے میں ہر طرف گڑھے کھدے ہوئے تھے اسی میں بقرہ عید
آ گئی-
قربانی کے بعد گؤشت کے حصّے لگ چکے تھے
” یہ نہاری کا ، یہ تکہ پارٹی کا ، یہ بریانی ک،ا یہ حلیم کا اور اس کا قیمہ اچھا بنے گا” ، راحمہ بقیہ گوشت کے حصے لگا لگا کر فریزر میں رکھ رہی تھی-
عید کے تیسرے دن علاقہ میں کھدائی دربارہ شروع ہو گئی کھدائی کے دوران چوک کے کنارے لگی ہوئی پی ایم ٹی Excavator کے bucket سے ٹکرا گئی اور پورا علاقہ تاریکی میں ڈوب گیا شدید گرمی میں ویسے بھی برا حال تھا ایک دن تو جیسے تیسے نکل گیا لیکن جب دوسرے دن بھی لائٹ نہیں آئی تو راحمہ کو کوشت کی فکر ہوئی -محلے میں تو پہلے ہی بجلی نہیں تھی اس لیے گوشت کو رکھوانے کا پوچھنا بھی بیکار تھا- لہذا اس نے یکے بعد دیگرے قریبی رشتے داروں کے ہاں فون کرنا شروع کیا کہ کوئی ان کے فریزر کا گوشت اپنے ہاں رکھ لیں- لیکن سب کے فریزر لبریز تھے- تقریباً سب ہی نے منع کر دیا تھا-
راحمہ نے ا پنی سوچ کے مطابق جو گوشت پہلے خراب ہونے کا خدشہ تھا کچھ کو آ نچ لگائ اور کچھ پکا کر گلی میں تقسیم کر دیا-
فکر سے راحمہ کے ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے کرے تو کیا کرے شام تک فریزر کے قریب سے گزرتے تو بساند آتی ایک تو گرمی اوپر سے بساند-
راحمہ نے پھر سے ہمت باندھی بساند والے گوشت کو الگ کیا اور صاف گوشت کو الگ اس صاف گوشت کے راحمہ نے مزید کھانے بنائے شروع کیے –
بریانی، کڑھائی، قورمہ،حلیم ، راحمہ رات تک کچن میں کھانے بنانے میں مصروف رہی- اس کے خیال میں کھانوں کو صبح ،شام آنچ لگا لوں گی کم از کم اتنا گوشت تو خراب نہیں ہوگا –
تصویر کے ایک رخ کے مصداق راحمہ نے اس سے آگے کا نہ سوچا اتنا بہت سا کھانا بننے کے بعد گھر کے سب ھی افراد نے بے ترتیب کھانا کھایا جس کی وجہ سے چاروں بچے، نجم ،خود راحمہ سب بیمار ہوگئے اور پھر ڈاکٹرز، دوائیاں،ڈرپپس اور نہ جانے کیا کیا-
راحمہ کے امی ابو بھائی بھابی سب ہی عیادت کو آئے “آخر اتنا گوشت جمع کرنے کی کیا ضرورت تھی راحمہ، نہ اتنا گوشت ہوتا نہ یہ مسئلہ بنتا” – راحمہ کی امی نے راحمہ کو سخت لہجے سمجھاتے ہوئے کہا-

لیکن امی اگر ڈیپ فریزر صحیح ہوتا تو یہ مسئلہ ہی نہ ہوتا محلے کے اور لوگوں میں سے تو کسی کا بھی گوشت خراب نہیں ہوا”
راحمہ کی بھابھی نے ساس کی بات کو برا ماناتے ہوئے کہا
” ہاں تم صحیح کہہ رہی ہو بیٹا , لیکن یہ بتاؤ اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے بعد اس قربانی کے بڑے حصے کو اپنے ہی پاس رکھ لینا کہاں کا انصاف ہے پھر تو یہ قربانی نہ ہوئی نا ،قربانی تو اپنی من پسند چیز کو اللّٰہ کی راہ میں دینے کو کہتے ہیں”-
اور ہاں یہ بھی بتادوں بجلی جانے سے ، ڈیپ فریزر خراب ہونے سے اللہ تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہے- اللہ انہیں لوگوں کو بتاتا ہے جو اس کے نیک بندے ہوتے ہیں جو ہدایت کے طالب ہوتے ہیں- لیکن ان سے کچھ غلطیاں ہو رہی ہوتی ہیں اللہ ایسے لوگوں کی چھوٹی بڑی برائیوں سے بچنے کے لیے کچھ آزمائشیں دیتا رہتا ہے تاکہ وہ ان سے بچ جائیں ورنہ اس محلے کے سینکڑوں لوگوں کو لائٹ جانے سے کوئی فرق نہیں پڑا ابھی بھی ان کے ڈیپ فریزر گوشت سے بھرے ہونگے-
نجم اور راحمہ نے تو کبھی ایسا سوچا ہی نہ تھا –
“واقعی امی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں اللہ تعالی مجھے معاف کرنا آئندہ کبھی ایسا نہیں کروں گی” راحمہ امی کی طرف محبت سے دیکھتے ہوئے کہا_