مہنگائی، عوام اور منافق سیاستدان

دنیا کی شاید ہی کوئی قوم قدرتی وسائل اور انسانی صلاحیتوں کا بیش بہا ذخیرہ ہونے کے باوجود اتنی نفرتوں، اقربا پروری اور بد دیانتی کا شکار ہوئی ہو جتناکہ پاکستانی قوم ہوئی جبکہ سیاستدان ہی وہ بازی گر ہیں جو ایوانِ اقتدار میں بیٹھ کر کسی بھی ملک کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔

ہمارے ساتھ ہوا کچھ یوں کہ منافق سیاستدانوں نے اس ملک کی معیشت کو تباہ کردیا ۔ قوم میں نفرتوں کی داغ بیل ڈالی جارہی ہے تاکہ آگے آنے والی نسلیں انسانیت اور حب الوطنی جیسے قیمتی جذبات و احساسات کو بھول جائیں اور ملکی تاریخ کو فراموش کردیں۔

ماضی میں پاکستانی قوم نے ایسے سپوت پیدا کیے جنہوں نے دنیا بھرمیں اپنی صلاحیتوں اور کام سے اپنی پہچان بنائی۔ مگر افسوس ! کہ سیاست کے اندر آج تک کوئی ایسا شخص نہیں آسکا جس نے اپنے ملک اور قو م کو قائدِ اعظم محمد علی جناح کی طرح باہمی محبت اور بھائی چارے کی راہ پر ڈال دیا ہو۔

ملک کو کمزور کرنے کیلئے ہمیشہ سے ہی بیرونی طاقتوں نے معیشت پر حملے کیے اور عوام کو نسلی و متعصبانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کیلئے کبھی پنجابی، کبھی پٹھان، کبھی بلوچی اور کبھی مہاجر کے نام پر نفرتوں کے بیج بوئے ۔ لوگ آپس میں لڑتے رہے جبکہ قابلیت کی بنیاد پر کسی قابل سیاستدان اور حقیقی رہنما کو ووٹ نہیں دیا گیا۔

جس ملک میں حقدار کو اس کا حق نہیں ملتا اور اداروں میں درست کام کیلئے درست لوگ بھرتی نہیں کیے جاتے، اس ملک کی معیشت تباہ ہوجاتی ہے۔ سیاستدانوں نے صرف نعروں اور گیدڑ بھبکیوں سے عوام کو بے وقوف بنایا اور عوام روٹی، کپڑا اور مکان کے انتظار میں ہمیشہ سے پریشان حال رہے۔

معیشت بہتر کرنے کیلئے سب سے اہم چیز دولت کا صحیح سمت میں استعمال ہے۔ سیاستدانوں نے کچھ اس قسم کے کھیل کھیلے کہ دولت کچھ مخصوص خاندانوں میں مرتکز ہو کر رہ گئی اور انہی خاندانوں نے اس دولت کے ذریعے سے ملکی معیشت اور سیاست کو تباہ کرنے کیلئے نت نئی چالیں چلیں۔

مثال کےطور پر پاکستان میں ہمیشہ سے حکومتی اداروں کو کمزور بنایا جاتا ہے تاکہ وہ ادارے نجی سیکٹر کے ہاتھوں میں دے دئیے جائیں اور نجی شعبہ اپنی من مانی کرتے ہوئے دولت کے انبار اپنے اردگرد جمع کر لیتا ہے۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی مہنگائی کے نام پراپنی جیبوں میں بھر لی جاتی ہے۔

ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں بجلی اس وجہ سے سستی تھی کہ بجلی گھروں کو حکومت چلایا کرتی تھی مگر سیاسی لوگوں نے ان بجلی گھروں میں غیر متعلقہ لوگوں کو بھرتی کرکے اس حد تک خراب کردیا کہ بجلی کے نظام کو فروخت کرکے نجی شعبے کے حوالے کرنا پڑ گیا۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان سیاسی لوگوں کے پیچھے کن طاقتوں کا ہاتھ تھا ؟ وہ نادیدہ ہاتھ آج بھی موجود ہیں جس کی مثال کے الیکٹرک کی تاریخ سے لی جاسکتی ہے جو ہر حکومت کے ساتھ اپنی وابستگی برقرار رکھتی ہے تاکہ ان کا ادارہ زیادہ سے زیادہ اپنے مفاد میں قانون سازی کرواسکے۔

کے الیکٹرک کا ادارہ جو کہ ماضی میں فرنس آئل اور گیس سے بجلی پیدا کرتا رہا ہے، آج صرف گیس سے ہی بجلی بناتا نظر آتا ہے تاکہ انہیں سستا پڑے تاہم عوام کو وہ آج بھی سب سے مہنگی قیمت پر بجلی فروخت کرتے ہیں جبکہ عوام سے ان کا حال پوچھنے والا نہ ماضی میں کوئی سیاستدان تھا، نہ آج ہے۔

مہنگی بجلی کے باعث عوام اپنی زندگی کے آرام و آسائش کیلئے کوئی بھی سہولت استعمال نہیں کرسکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چاہے وہ واشنگ مشین ہو، ائیر کولر ہو، ائیر کنڈیشنر ہو، پانی کی موٹر ہو یا کوئی بھی ایسی چیز جو بجلی سے چلتی ہے، بجلی کی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگ اسے استعمال نہیں کرتے۔

یہ وہ سہولیات ہیں جو بنیادی انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستان جیسے گرم علاقوں کیلئے لازمی سمجھتے ہیں کہ انسان کو گرمی سے بچانے کیلئے جب وہ تھک ہا رکر اپنے گھر واپس لوٹے تو ضروری ہے کہ اسے ایسی سہولیات مہیا ہوں ۔ لیکن ایسے موقعے پر گھروں میں بجلی غائب ہوجایا کرتی ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کئی کئی گھنٹوں تک بجلی غائب رہتی ہے اور بجلی کے بلوں میں ہر ماہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ کسی زمانے میں یہ اضافہ چند پیسوں کی حد تک کیا جاتا تھا ، اب کئی روپوں کے حساب سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ کبھی 5 تو کبھی 10 روپے بڑھا دئیے جاتے ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ 15سالوں میں بجلی کی قیمت 150فیصد تک بڑھ چکی ہے مگر نجی اداروں میں ملازمین کی تنخواہوں میں گزشتہ 15برسوں میں صرف 25فیصد کے لگ بھگ ہی اضافہ ہوا اور حکومت نے ٹیکس بھی تنخواہ داروں پر ہی عائد کردیا ہے۔ سرمایہ داروں پر ٹیکس عائد کیا جائے تو وہ مصیبت بھی سرمایہ دار لوگ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھا کر عوام کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔

ایک عام آدمی معیشت کے اس دباؤ اور کسمپرسی کو برداشت کرنے کے قابل نہیں رہا۔ اسے اتنا مجبور کردیا گیا ہے کہ وہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اپنی اخلاقی اقدار بھول رہا ہے۔ ہر شخص ایک دوسرے کو لوٹنے میں لگا ہوا ہے جس کے ذمہ دار وہ سیاسی لوگ ہیں جنہوں نے نفرتوں اور مہنگائی کو فروغ دیا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ اقتدار کی مسند پر بیٹھے سیاستدان دنیا کو ہی اپنا پہلا اور آخری گھر نہ سمجھیں بلکہ کچھ نہ کچھ فکر اپنی عاقبت کی بھی کر لیں کیونکہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوا کرتی ہے۔ اگر وہ ڈھیل دے تو دئیے چلا جاتا ہے لیکن اگر دبوچ لے تو آپ کو اس سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔