ملک کی آڈیو، وڈیومارکہ سیاست

اقبال نے کہا تھا کہ ”محو حیرت ہوں دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی ”۔حضرت اقبال تو تقریباٍ ایک صدی قبل ہی دنیا کو رنگ بدلتے دیکھ کر حیران رہ گئے تھے لیکن اب جو دورہے اس میں کوئی بھی خبر حیرتوں کے پہاڑ نہیں توڑتی ہے۔ سیاست کا میدان بھی عجیب ہے۔ ایک انگریزی مقولہ ہے کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی سیاست اور ہمارے سیاستدان آج کل ”سب کچھ جائزہے” کے مقولے پر عمل پیرا ہیں۔ بدلتی ہوئی دنیا اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہماری سیاست میں آڈیو ز اور ویڈیوز لیکس کی شکل میں ہورہا ہے۔ واقفان حال تو بتارہے ہیں کہ ملک کی آئندہ سیاست کا محور ہی یہ آڈیوز اور ویڈیوہوںگی اور اب کس کے پاس کتنی اور کس نوعیت کی وڈیوز ہیں یہ تو وہی جانتے ہوں گے لیکن کچھ ستم ظریفوں نے ابھی سے کہنا شروع کردیا ہے کہ آئندہ الیکشن’ ‘ٹوٹوں کا الیکشن” کا ہوگا۔

ہمارے ملک میں آڈیو لیکس ہونے کی بھی ایک تاریخ ہے۔ پہلے ٹیکنالوجی اتنی جدید نہیں تھی تو ان آڈیوز کی صحت ہمیشہ مشکوک ہی رہتی تھی۔ اب دور بدل گیا ہے۔ ہر بچے کے پاس جدید موبائل فون موجود ہے بلکہ یوں کہہ لیں کہ اس موبائل فون نے ہر شخص کو تحقیقاتی رپورٹرز بنادیا ہے اور کب آپ کی کون سی حرکت کیمرے کی آنکھ میں قید کرلی جائے آپ اس سے بے خبر ہی رہتے ہیں ۔ہم بات کررہے تھے اڈیو لیکس کی تاریخ کی تو 90ء کی دہائی میں سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کو ایس جی ایس کوٹیکنا کیس میں پانچ پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ یہ سزا لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج ملک محمد قیوم کی قیادت میں بنچ کی طرف سے سنائی گئی تھی۔ انہی دنوں میں ایک آڈیو ٹیپ سامنے آئی تھی جس میں مذکورہ جج کے علاوہ سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف اور اس وقت کے احتساب کمیشن کے چیئرمین سیف الرحمٰن آپس میں گفتگو کر رہے تھے اور ملزمان کو سزائیں سنانے کے حوالے سے جج پر دبا ڈالا جا رہا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج ملک قیوم کی آڈیو ٹیپ کو اس فیصلے کے خلاف اپیل میں نہ صرف بطور شہادت پیش کیا گیا تھا بلکہ اس آڈیو ٹیپ کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ کے سامنے بھی پیش کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی اس پانچ رکنی بینچ کا حصہ تھے۔ جب سپریم کورٹ میں اس اپیل کی سماعت ہوئی تو اس وقت سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو ملک سے باہر تھیں اور ان کی عدم موجودگی میں سپریم کورٹ میں ایپل کی سماعت ہوئی تھی۔

یہ تو تھی تین دہائی پرانی بات ہے۔ اس اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں تو ایسا لگتا ہے کہ ملک کی سیاست میں آڈیوز اور وڈیوز کی بہار آگئی ہے۔ پہلے نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی وڈیو سامنے آئی تھی ۔اس کے بعد چیئرمین نیب جسٹس(ر)جاوید اقبال بھی ایک وڈیو کی زد میں آئے، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو سامنے آئی ،سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی وڈیو نے بھی سوشل میڈیا پر تہلکہ مچایا۔

مریم نواز نے کی بھی آڈیوز لیک ہوئیں جس میں وہ چند چینلز کے اشتہارات روکنے کے احکامات جاری کررہی تھیں تاہم اس میں اچھی بات یہ ہے کہ مریم نواز نے اس آڈیو کی حقیقت سے انکار نہیں کیا اور برملا اس کا اعتراف کیا کہ یہ آواز ان کی ہے ۔آج کل سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور پارٹی کے سوشل میڈیا ہیڈ ڈاکٹر ارسلان خالد کی ایک مبینہ آڈیو لیک بھی خبروں کی زینت ہے جس میں سابق خاتون اول غداری کے بیانیے کو مزید پھیلانے کی ہدایات جاری کررہی ہیں۔

سابق وزیرنوازشریف کے داماد کیپٹن(ر)صفدر اس وقت ویڈیوز اور آڈیوز کے حوالے سے سب سے زیادہ باخبر شخصیت تصور کیے جارہے ہیں کیونکہ وہ اپنی ہر میڈیا ٹاک میں صحافیوں کو آگاہ کرتے ہیں کہ اب ”کیسے کیسے شاہکار” سامنے آنے والے ہیں۔ ان کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ ایسی ویڈیو بھی سامنے آنے والی ہیں جن میں کچھ افراد سوئمنگ پولز اور واش رومز میں گرے ہوئے نظرآئیں گے۔ ایک سینئر صحافی اپنے ٹی وی پروگرام میں دعویٰ کرتے نظرآئے دونوں جانب آگ برابر لگی ہوئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ایک پارٹی کی جانب سے وڈیو سامنے آئے گی تو دوسرا فریق مقابلے میں دو ویڈیوز جاری کرے گا اور یہ ویڈیوز ہر قسم کی ہے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری سیاست اب کسی فلم کی طرح ” بڑے پردے” پر چلا کرے گی۔

یہ وہ صورت حال ہے جس نے ملک کے سنجیدہ حلقوں کو انتہائی پریشان کردیا ہے۔ ان کو ایسے لگ رہا ہے کہ جس طرح ان آڈیوز اور ویڈیوز کے آنے کا سلسلہ جاری ہے اگر وہ نہیں تھما تو جس طرح ”عشق کی کوئی انتہاء نہیں ہوتی” اسی طرح ان آڈیوز اور ویڈیوز کی بھی کوئی انتہا نہیں ہوگی۔ لگتا یوں ہی ہے کہ اس حمام میں سب ننگے میں ہیں۔ کوشش یہ کی جانی چاہیے کہ یہ برہنگی حمام تک ہی محدود رہے۔ اگر یہ چوراہوں تک آگئی ہے تو ملک کا چہرا انتہائی بدنما ہوسکتا ہے۔ تمام حلقوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اب ان آڈیوز اور ویڈیوز کے سامنے بند باندھنا ہوگا۔