کیسے ادا ہو اس مہنگائی میں سنتِ ابراہیمی

اکبر صاحب ایک جنرل اسٹور چلاتے ہیں۔ کئی سالوں سے اپنے بچوں کی فرمائش پر قربانی میں بکرا ذبح کرتے تھے۔ کرونا کے بعد موجودہ مہنگائی نے کاروبار پر شدید اثر ڈالا ہے۔ گزشتہ دو سال سے وہ اجتماعی قربانی میں حصہ ڈالنے لگے تھے۔ موجودہ سال تو آسمان کو چھوتی مہنگائی نے ان کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔ جوں جوں عید قربان قریب آ رہی ہے بچوں کا اصرار بڑھ رہا۔ ایسا ہی ایک گھرانہ مجید صاحب کا ہے۔ کچھ سال پہلے تک وہ قربانی کیا کرتے تھے مگر اب مہنگائی کے پے در پے جھٹکوں نے اس سنت کی ادائیگی سے محروم کر دیا ہے۔ بچوں کو بہلانے کے لئے ہر شام قریبی منڈی کا چکر لگاتے ہیں اور مویشیوں کی قیمتیں سن کر دل مسوس کر رہ جاتے ہیں۔ ایسی کئی کہانیاں ہمارے اردگرد بکھری ہوئی ہیں۔

موسم کی حدت اور مہنگائی کی شدت جھلسائے دے رہی ہے۔ مہنگائی میں ہوشربا اضافہ غریب عوام کے ہوش اڑا رہا ہے۔ ایسے میں عید الاضحیٰ یعنی عید قربان کی آمد آمد ہے۔ عید الاضحیٰ کا لازمی جزو سنت ابراہیمی یعنی قربانی جسے تمام صاحب حیثیت مسلمان بہت جوش جذبے سے ادا کرتے ہیں۔ بچے ہوں یا بڑے عید قربان کا شدت سے انتظار ہوتا ہے۔ عید قربان پر کچھ نظارے ایسے ہوتے ہیں جو کہ اس تہوار کا حسن ہے۔ کراچی کی منڈیاں ہوں یا پنجاب کی، ایک گہما گہمی کا سماں ہوتا ہے۔ جانور خریدنے والوں اور بیچنے والوں کی دلچسپ نوک جھونک سے لے کر خوبصورت جانوروں کی کیٹ واک ان منڈیوں کی رونق میں اضافہ کرتی ہے ۔ جانوروں کے ساتھ سلفیاں لی جاتی ہیں ۔ مشروبات اور کھانوں کے مختلف اسٹال لگے ہوتے ایک میلہ سا لگا ہوتاہے۔ دور دور سے لوگ جانور دیکھنے کے لئے مختلف منڈیوں کا رخ کرتے ہیں۔ منڈی مویشیاں میں ذوق و شوق سے آنے والے افراد میں بڑی تعداد بچوں اور بوڑھوں کی ہوا کرتی ہے۔ جانور خریدنے جانا گویا عید قربان کی تیاریوں کا لازم جزو ہے۔اس کے علاوہ بہت سے احباب جلدی قربانی کا جانور خریدنے پر یقین رکھتے ہیں تاکہ قربانی کے جانور کی اچھی طرح خدمت کی جائے۔ بچوں کی زیادہ دلچسپی بکرا خریدنے میں ہوتے ہے کیونکہ بکرے کو وہ گلی محلے میں گھما بھی سکتے ہیں۔ ساتھ ہی بکرے کی دگنی تگنی قیمت بتائی جاتی ہے۔ بڑے بوڑھے سودا طے کرنے کے لئے بہت اہتمام سے منڈی جاتے ہیں کیونکہ ان کا تجربہ نوجوانوں کی عمر سے زیادہ ہوتا ہے۔ مگر اس سال بوڑھوں کا تجربہ بھی فیل ہوتا نظر آتا ہے۔

منڈی مویشیاں کا حال یہ ہے کہ جانور تو بہت ہیں منڈی میں رش بھی بہت ہے، مگر گاہک بہت کم ہیں۔ زیادہ تر افراد سارا دن اس منڈی سے اس منڈی ریٹ چیک کرتے پھر رہے ہیں تاکہ بجٹ کے اندر رہتے ہوئے سنت ابراہیمی ادا کی جائے مگر محسوس یہ ہو رہا ہے کہ مویشیوں کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ جانوروں کی قیمتیں گزشتہ سال کی نسبت دگنی تگنی ہو چکی ہیں۔ اس سال عوام کا زیادہ رحجان اجتماعی قربانی کی طرف جا رہا ہے۔ مگر جو جانور گزشتہ سال ستر ہزار کا خریدا گیا تھا اس سال اس کی قیمت ایک لاکھ چالیس ہزار سے کم ہرگز ہوتی نظر نہیں آرہی۔ منڈی مویشیاں میں بڑے جانور گائے ویڑھے وغیرہ کی قیمتیں دو لاکھ سے 80 لاکھ تک ہیں ۔ اونٹوں کی قیمت دو لاکھ سے شروع ہو کر 15 لاکھ تک ہے جبکہ بکرے، چھترے اور دنبے کی قیمتیں40/ 50 ہزار سے ایک لاکھ تک جا رہی ہیں۔

بقول شاعر،،،

بکرے کے دام پوچھے تو جی چاہنے لگا

اپنے گلے میں ڈال کے رسی کھڑے رہیں

کچھ سمجھ دار افراد کا کہنا ہے کہ سنگل والوں کے ریٹ تاحال مناسب ہیں کیونکہ ان کا ایک جانور ہوتا ہے تو اپنا جانور بیچ کر واپسی کی راہ لینی ہوتی ہے البتہ جو زیادہ جانور لے کر آئے ہیں اور عید تک مستقل یہیں ہیں وہ تو ہلکے میں بات بھی نہیں کرتے۔ شدید گرمی سے بھی خریدار پریشان ہو جاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ بس جانور لیں اور گھر کی راہ لیں اس سلسلے میں بعض سمجھ دار افراد کا کہنا ہے کہ جانور کا سودا کرنے میں جلدی ہرگز نہ کریں کیونکہ بہت سے ٹھگ آپ کو چونا لگا سکتے ہیں۔ قیمتوں میں شدید اضافے نے عید کے دوسرے یا تیسرے دن قربانی کی سوچ کو بھی فروغ دیا ہے۔ ممکنہ طور پر تب تو قیمت کم ہو ہی جائے گی۔

قربانی کی خریداری کے بعد اس کو گھر پہنچانا بھی اہم مرحلہ ہے۔ ٹرانسپورٹرز حضرات جو کرایہ بتا رہے ہیں محسوس ہوتا ہے کہ شاید انہوں نے کندھوں پر اٹھا کر جانور گھر تک پہنچانا ہے۔ ساتھ ہی پٹرول کی قیمت بتائی جاتی ہے۔ عام رکشے کا کرایہ 1500 سے شروع ہو رہا ہے وہ بھی چند کلومیٹر کے لئے۔

قربانی کو ذبح کرانے کے لئے قصائیوں کی بھی بکنگ جاری ہے ان کے بھی من مانے ریٹ ہیں۔

عید الاضحی میں قربانی کے ریٹ تو تیز ہیں ہی مگر آہستہ آہستہ سبزیوں کے ریٹ بھی اوپر جا رہے ہیں۔ عید کے قریب قریب پیاز ٹماٹر مرچوں لیموں وغیرہ کی قیمتوں میں خصوصاً اضافہ ہونا شروع ہوگیاہے۔ اس سال بجٹ اور بجٹ کے علاؤہ قیمتوں میں اضافے نے پہلے ہی عوام کی کمر توڑ رکھی ہے،آٹا، تیل، گھی اور چینی کی قیمتوں میں پہلے ہی اضافہ ہو چکا ہے۔ عام عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔