قصہ ایک گمشدہ موبائل کا

زندگی میں ایسے بہت سے واقعات، حادثات و سانحات رونماہوتے ہیں کہ انسان جو اپنے آپ کو بہت عقلمند سمجھتاہےاسکی ساری عقل دھری کی دھری رہ جاتی یے۔ وہ سوچتاہے کہ کیا وہ بھی ایسی غلطی کرسکتا ہے یا اسکے ساتھ بھی ایسا کچھ وقوع پذیر ہوسکتاہے جو اسکے وہم و گمان میں بھی ناہو۔ لیکن قدرت کبھی کبھی انسان کواسکی اوقات یاد دلانے کیلئے کچھ ایسے فیصلے کرتی ہے کہ اس کو لگ پتہ جاتاہے کہ وہ کیا چیز ہے۔ ویسے بھی انسان کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ یہ دنیاہے یہاں ہر چیز ممکن ہے۔ کسی سانس کسی عقل کسی شے کسی تعلق کسی قابلیت کسی رشتے کسی چیز کا کوئی بھروسہ ہی نہیں ہے۔ جیسے ہماری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اسی طرح یہاں موجود کسی چیز کا بھی کوئی بھروسہ نہیں۔ بس اسی لئے دنیاکو امتحان گاہ کہا گیاہے۔

بقول میر درد۔۔۔۔

تہمت چند اپنے ذمّے دھر چلے،

جس لئے آئے تھے سو ہم کر چلے۔

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے،

ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے۔

دنیا تو یہی ہے۔  دنیا کی سب سے بڑی سچائی ہے کہ مصیبتیں آزمائشیں مشکلات پریشانیاں تو آئیں گی۔ لیکن ان پر ثابت قدم رہنے والے ہی اصل کامیاب ہیں۔ کیونکہ زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانےکا اور ان غموں کو ہنس کر برداشت کرنے کا راز جس نے پالیا اور مصیبتوں آزمائشوں کو رب کی رضا سمجھ کر صبر کرلیا تو وہی اصل کامیاب ہے۔ اور اخروی اجر کا مستحق بھی وہی ہے۔۔۔۔

چلیں بھئی تمہید بہت لمبی ہوگئی اب آتے ہیں اپنی زندگی کے بہت انوکھے واقعہ کی جانب، ہوا کچھ یوں کہ ہمارے گھر پوری رات بجلی لوڈشیڈنگ ہوتی رہی جو کراچی بلکہ پاکستان کے باشندوں کے لئے ایک عام سی بات ہے۔ انسان اپنے اوپر سب کچھ برداشت کرلیتاہے۔ لیکن جہاں بات چھوٹے بچوں کی آجائے تو انسان سے انکا کرب نہیں دیکھا جاتا۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایساہی ہوا۔ جب پوری رات لوڈ شیڈنگ نے پریشان کیاتوصبح کو شوہر کو ناشتہ دیکر ان سے امی کے گھر جانے اور بجلی کے ستائے گرمی  سے بلبلاتے بچوں کی مجبوری جب بیان کی تو شوہر تھوڑی حیل و حجت کے بعد امی کے گھر چھوڑنے پر راضی ہوگئے۔ جس پرجانے تیاری شروع کی موبائل اور چارجر( جو بہت ضروری ہوتاجارہاہے) رکھا، بچوں کا دودھ، کپڑے سب رات میں رکھ لئے تھے۔ جلدی جلدی ناشتہ کرکے بچوں کوتیار کیا اور شوہر کے ساتھ امی کےگھر پہنچ گئے۔

امی کے گھر امی ابو کے بغیربالکل سونا لگتاہے۔دل ہی نہیں چاہتا زیادہ دیر رکا جائے۔ لیکن مجبوری اور موبائل چارج بھی نہیں تھا۔ جلدی جلدی چارج کیا۔ اب ہماری ناظمہ کا فون آگیاکہ سمر کیمپ کی تیاری کرلو۔ آج تو چلی جاؤ۔ کافی دن سے وہ ہمارے پیچھے پڑیں تھیں کہ یوتھ اور سمر کیمپ ایک ساتھ ہورہاہے۔ تم کیوں نہیں جاتیں۔ خیر  اس دن موقع غنیمت جانا اورموبائل چارج سے نکال کر بستر پر رکھا اور بچوں کو لیکر سمر کیمپ کی جانب نکل پڑے۔

سمر کیمپ میں بچوں کو بٹھایا بچوں کا بیگ وہیں رکھا اور خود یوتھ کی کلاس لینے انکے لاؤنج میں آگئے۔ باہر یوتھ اور اندر کمرے میں سمر کیمپ ہورہاتھا۔خیر سعد اور عائشہ تھوڑی دیر میں اُکتاگئے انکو بھی ساتھ لیکر یوتھ کلاس میں آبیٹھے۔ کلاس میں کیک اور لیزانیا سکھارہی تھیں۔ ہم نے بہت اچھے سے ساری کاروائی دیکھی۔ کیک اور لزانیا سے لطف اندوز ہوئے۔ ہمیں اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ یہ لزانیا اور کیک ہمیں کتنا مہنگا پڑنے والا ہے۔ اسکے بعد بچوں کو لئے امی کےگھر کی جانب نکل پڑے۔

گھر پہنچ کر موبائل بستر پر نا پاکر بھائی کو کہا کہ بیل دے۔ وہ بیل دینے لگا لیکن کہیں آواز نہیں آئی۔ ہم کبھی موبائل سائلینٹ پر نہیں رکھتے۔ ہم نے موبائل ڈھونڈنا شروع کیا لیکن وہ نہیں ملا۔ شام میں سعد کو پارک لے جانے کے بہانے پارک سے ان آنٹی کے گھر گئے جہاں سمر کیمپ اور یوتھ کلاسز ہورہی تھیں۔

آنٹی نے گھر بالکل صاف کروادیاتھا۔ کہنے لگیں تم سمر کیمپ والے کمرے میں دیکھ لو۔ ہم نے جب جاکر دیکھا تو وہاں کچھ نہیں تھا۔ آنٹی کچھ پریشان سی ہورہی تھیں۔ دراصل وہ اپنے پورشن میں بالکل اکیلی رہتی تھیں۔ اور ہمارا اچانک بچوں کے ساتھ دھاوا شاید انہیں کچھ پریشان کررہاتھا۔ ہم نے ان سے کہا اپنا موبائل دیجئےگا ذرا ہم اپنے موبائل پربیل مارلیں تو انہوں نے ہم سےنمبر پوچھ کر خود ہی بیل دی اور کہا کہ رابطہ ممکن نہیں۔ ہم خاموشی سے امی کے گھر آگئے۔ گھر آکر بھی خوب خوب بیلیں دیں۔ مسلسل بیل جارہی تھیں۔ خیر اسی شش و پنج میں ہم بغیر موبائل کے اپنے گھر آگئے۔ دوسرے دن دوبارہ امی کے گھر آدھمکے۔ سارے بستر ساری الماریاں سب  سےایک ایک چیز نکال کر دیکھیں لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ نا نکل سکا۔

تیسرے دن جمعرات کو بھی وہیں تھے۔ موبائل کھونے سےایک دن پہلے ہی لیپ ٹاپ سے واٹس اپ ویب چلایا تھا۔ جسکا فائدہ یہ ہوا کہ  لیپ ٹاپ سے تمام لوگوں کو پیغام دےڈالا کہ ہمارا موبائل نہیں مل رہا۔ آپ لوگ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیئے۔ اسکے بعد ہر گروپ سے ناختم ہونے والے مشوروں، دعاوں، نمازحاجات، وظائف اور مختلف ترکیبوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہم جو موبائل کی تلاش سے مایوس ہمارے حوصلوں کو تحریک دینےکیلئے مددگار ثابت ہوئے۔ اور نئے عزم سے ان تمام دعاوں تراکیب پر عمل کرنا شروع کردیا۔

کہتے ہیں نا جب کوئی سہارا نا ہوتو اللہ بہت زیادہ یاد آتاہے۔ کسی خاتون نے وائس میسج بھیجا صدقہ دو تو فوری بھائی کو بہت سارے روپے دیئے کہ کسی کو دے دو۔ بھائی نے کہا کس کو دوں۔ میں نے کہا بھلے کسی کو دے دو مسجد فنڈ میں ڈال دو۔

چھوٹا بھائی بار بار پوچھتارہا۔ ہاں بھئی ملا موبائل ؟ جس پر ہم مایوس شکل بناکر اسے دیکھتے رہے۔ وہ سمجھ کر خاموشی سے چلا گیا بہت سے لوگوں نے کہا گوگل کال کرو۔ وہ بھی کی۔ بیل جارہی تھی لیکن کہیں سے آواز ہی نہیں آرہی۔ چوتھے دن جمعے کو صبح صبح سم نکلوانے نکلے تو یوفون کی سم سسٹم ڈاون ہونے کے باعث نا نکل سکی لیکن جازکی سم نکلوکر گھر آگئے۔

ہفتے کو پورا دن مختلف ڈیپارٹمنٹ کمپلین کر کے موبائل کی پن لوکیشن لی۔ پتہ چلا گلشن اسلام گولڈ کراچی میں آپکا موبائل لاسٹ ٹائم وہیں سے بند ہوا۔ اسپر اور پریشانی شروع ہوگئی کہ وہاں کون لے گیا۔ امی ابو بھی وہاں پریشان تھے کہ ایسے کیسے گھر سے غائب ہوگیا۔

یہاں میں ایک بات بتاتی چلوں کہ موبائل کی گمشدگی سے میرے بچوں کے کاموں اور گھر کے کاموں پر ہم نے کوئی آنچ تک نا آنے دی۔ اتوار کو صبح سعد کے ساتھ باتیں کررہی تھی تو اس سے موبائل کا پوچھا تو بولا ماما آپکا موبائل بیگ سے زمین پر رکھا تھا پھر غائب ہوگیا۔ کیا تم نے بیگ میں ڈالا تھا موبائل یعنی موبائل گھر میں نہیں تھا۔ انہیں آنٹی کے گھر تھا۔ لیکن انکا گھر تو بالکل صاف تھا۔ ہوسکتاہے انکی ماسی لے گئی ہو۔ وہ گلشن اسلام میں رہتی ہو۔

کیا سعد سچ بتاو تم نے موبائل بیگ میں ڈالا تھا چار سالہ بچے کی ہاں پر بابا بولے۔ تم بچے کے منہ میں اپنے الفاظ ڈال رہی ہو۔ اففف اب کیا کریں۔۔ اتوار کو دوپہرمیں دو بجے جماعت کی آنٹی کا فون آیا تم کہاں ہو۔ ہم بولے کیا موبائل مل گیا۔ تو کہنے لگیں کہ ہمارے ہاں مہمان آرہے تھے صفائی ستھرائی کےلئے صوفے جھاڑے تو تمہارا موبائل مل گیا۔

موبائل کے بغیر یہ تو ہم ہی جانتے ہیں کہ ہماری راتوں کی نیند کیسے غائب ہوگئی تھی۔ اتنا سارا ڈیٹا پلک جھپکتے میں گم ہوجانا۔ ہم ٹھہرے ریسرچ اسٹوڈنٹ۔ بہت بڑےمسئلے کی بات تھی، سہہ پہر تین بجے بچوں کو چھوڑ کر کڑی دھوپ میں ان آنٹی کےگھر گئے۔ بیچاری بہت شرمندہ تھیں۔۔ کافی دیر تک وہ ہمیں موبائل ڈھونڈنے کا قصہ سناتی رہیں۔ اب ہماری برداشت سے باہر ہوگیا۔ ہم نے کہا آنٹی موبائل تو دکھائیں۔ انہوں نے ایک گندہ سا مٹی والا موبائل ہمارے حوالے کیا۔ جو ہمارا ہی تھا صوفوں میں دبے ہونے کے باعث وہ مٹیالہ ہوگیاتھا۔ میں نے کہا آنٹی موبائل کو کاغذ میں لپیٹ کر تھیلی میں ڈال دیں تاکہ سنسان جگہ سے جانے میں ڈر نا ہو۔ اب مل گیاہےتو خیریت کےساتھ گھر بھی پہنچ جائے۔ موبائل لیا چپکے سے گھر آگئے۔ خاموشی سے موبائل چارج پر لگایا اور اللہ کا شکر ادا کرنے لگے،

اس واقعے میں میرے لئے عمل کی بہت راہیں پیداہوئیں، بہت رنجشیں ہوئیں، بہت تلخیاں ہوئیں۔ میری وجہ سے بہت سوں کو کچھ سہنا پڑا، بہت سے لوگوں کومیں نے سہا۔ لیکن سب سے معذرت اور اصولی بات کہ رب سے ناامیدی کفر ہے۔ چار دن کی اس اذیت سے جو میں نے سیکھا، موبائل کے بغیر بھی رہاجاسکتاہے، موبائل غیر ضروری استعمال کے لئے ہرگز نہیں ہے، موبائل فارغ وقت کے لئے ہرگز نہیں ہے، موبائل استعمال کریں لیکن رات میں وقت پر سوجائیں۔ موبائل بچوں سے دور رکھیں۔