قربانی

قربانی کی تاریخ اتنی پرانی ہے جتنی پرانی انسان کی تاریخ ہے انسان نے مختلف ادوار میں عقیدہ و فدایت ، سپردگی و جان نثاری ، عشق و محبت ، عجز و نیاز ، ایثار و قربانی اور پرستش و عبدیت کےجو طریقے اختیار کیے خدا کی شریعت میں انسانی نفسیات اور جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے وہ تمام ہی طریقے اپنی مخصوص اصلاحات کے ساتھ خدا کے لئے خاص کردیئے ہر دور میں انسانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ مختلف عقائد میں پیش کیا لیکن دراصل مقبولیت کی بنیاد اللہ کا تقوی ہے ۔

“اس نے کہا خدا تقوی والوں ہی کا عمل قبول کرتا ہے “(سورۃ المائدہ )۔یعنی قربانی ہر شریعت کے نظام عبادت میں موجود رہی ہے البتہ مختلف زمانوں میں مختلف قوموں مختلف ملکوں کے نبیوں کی شریعت میں ان کے حالات کے پیش نظر قربانی کے قائدے مختلف رہے ہیں اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی صرف بیٹے کی قربانی نہیں تھی بلکہ اس عزم و یقین اور سپردگی و فدایت کا عملی اظہار ہے کہ جو کچھ بھی اس کے پاس ہیں وہ سب اللہ کا ہے اور اسی کی راہ میں سب قربان ہونا چاہیے اور یہی خوبیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت میں تھی اور اسی عہد و پیمان اور سپردگی وفد ایت کا نام ہی ایمان ، اسلام اور احسان ہے ۔ ان کی سیرت مبارکہ میں قربانیاں ہی قربانیاں ہیں۔ یہی وجہ دوستی کے ان عظیم قربانیوں نے انہیں خلیل اللہ کا لقب دیا ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قربانیوں فدا کاری کی روح پوری زندگی میں جاری و ساری رکھنے کی تعلیم دیتے ہوئے یہ ہدایت کی گئی کہ (کہو میری نماز میری قربانی میری زندگی اور میری موت سب اللہ رب العالمین کے لئے ہے اس کا کوئی شریک نہیں مجھے اسی کا حکم ملا اور میں سب سے پہلا فرمانبردار ہوں) ۔( سورہ انعام )۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی عظیم ان قربانیوں سے ممیز ہے ۔ بالکل اسی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی بھی ان عظیم معارکو کی ترجمانی کر رہی ہے ۔ اور آج امت مسلمہ بھی اسی مشن پر قائم ہے معاشرے میں بڑھتی ہوئی برائیوں کے خلاف، ملکی نظام میں بڑھتی ہوئی مداخلت، طاغوتی پر چار اور نا انصافی کا ماحول ان سب معاملات میں اجتماعی قربانی کہ ہم ان سب کا معاشرتی نظام سے چناؤ کریں اور اسلامی روایات کی ترویج کریں معاشرے میں عدل و انصاف اور حق و صداقت کا علم بلند کریں طاغوتی نظام اور سودی نظام کا خاتمہ کریں ساری جدوجہد آج بھی ابراہیم علیہ السلام کی سنت کا حصہ ہی ہے جو ہمیں آپ کی پوری زندگی سے ملتا ہے ۔ اور اس کی مزید اصلاح پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے بھی ثابت ہے اللہ تعالی ہماری زندگی میں ان تبدیلیوں کا اضافہ فرمائے( آمین )۔