خود کشی پر قابو کیسے ؟

عقیدہ آخرت کو کوئی مانتا ہو یا نا، آخرت کا وقوع پزیر ہونا بہرحال یقینی ہے، ہر انسان خواہ نیکیوں کا پلڑا بھاری رکھتا ہو یا برائیوں کا، دنیا میں مکمل صلہ پانے سے محروم رہتا ہے، یہ ضرور ہے کہ کچھ نیکیوں کا اجر اور کچھ برائیوں کی سزا دنیا میں بھی دے دی جاتی ہے، لیکن اصل میزان یوم الحساب کو ہی ہو گا، عادل ومنصف خدا سے ایسی توقع رکھنا ہی عقلمندی ہے اور ایمان کی علامت بھی۔

باضمیر اور حساس ہونا جہاں نعمت خداوندی ہےوہیں ایک عظیم آزمائش بھی ہے، با ضمیر شخص مایوس ہو جائے۔ اگرتبدیلی کی اُمید سے۔ صبح نو سے۔ تنگی کے ساتھ آسانی کے انتظار میں۔ تو یہ فردکی ہار یا ناکامی کے ساتھ ساتھ معاشرے کے اجتماعی ضمیر کے لئے ایک سوالیہ علامت بھی ہے۔ معاشرے کی بے حسی کے بنا ایسی صورتحال شاذ ہی پیدا ہوتی ہے، لہذا فرد کے جرم کے مواخذے سے معاشرے کی چھوٹ بھی ممکن نہیں۔ اگر کوئی معاشرتی رویوں سے دل برداشتہ ہو کر ایسا قدم اٹھائے تو گردو پیش والوں کو بالخصوص براءت نامہ تیار کر لینا چاہیئے۔ اگر ایک فرد نے غربت سے تنگ آ کر انتہائی قدم اٹھایا تو فرد کے اقرباء، پڑوسی، حکومت کو بھی جواب دہی کی تیاری کر لینی چاہیئے، جس مذہب نے یہ اخلاقیات سکھائی ہیں کہ۔ چھلکے بھی پڑوسی کو نظر نہ آئیں، مبادا کہ وہ کسی محرومی کا شکار ہو جائیں، جو کم از کم چالیس گھروں تک کے احوال سے خبردار رہنا سکھاتا ہے، مبادا کہ کوئی بھوکے پیٹ نہ سو جائے۔ اور پھر حاکم کے سپرد زکوۃ و عشر مال غنیمت نظام کر کے اسے مساکین و فقراء کا ولی بنا کر رعایا کی خبر گیری کی ذمہ داری دیتا ہے۔ اس مذہب کے نام لیواؤں کی جانب سے بار بار اٹھنے والا یہ حرام فعل لمحہ فکریہ ہے۔

یقیناً ہم نے شہادت حق کا فریضہ ادا کرنے میں کوتاہی کی ہے، امیر کو زکوۃ، صدقات، اور ان کے مال میں موجود سائل اور محروم کا حق ادا کرنے کی تلقین ہوتی رہنی چاہیئے، نمود نمائش، اسراف سے باز رہنے کا درس دیا جانا چاہیئے، کم وسائل والے کو حالات کی سختی سے گھبرانے کی بجائے صبر، شکر اور قناعت سے کام لینا چاہیئے، اخوت و بھائی چارہ کے فروغ کے لئے فضول رسم رواج کی ادائیگی کے لیے فکر کرنے کی بجائے، آپس میں سلام کو رواج دینا چاہیںے، تحفے تحائف کے لین دین کو فروغ دینا چاہیئے خواہ یہ معمولی اشیاء ہی کیوں نہ ہوں۔

بے حسی سے پناہ مانگیں، اپنی خاطر اور دوسروں کے لئے۔ خیر خواہی کا حق ادا کریں، ضرورت سے زائد خوددار ضرورت مندوں میں بانٹ دیں۔ خود بھی سماج سے دور نہ رہیں اور سماجی تنہائی کے شکار افراد سے دوستی کرکے انہیں معاشرے میں جینا سکھا دیں۔ گر چہ ہم معاشرتی رویوں کو یکدم نہیں بدل سکتے، تا ہم ان رویوں کے شکار افراد کو مایوسی سے نکال کر معاشرے کی اصلاح کے لئے استعمال کر سکتے ہیں، بے شک معاشرے کی اصلاح کے لئے ایسے حساس افراد کی شدید ضرورت ہے جو معاشرتی برائیوں کا تنہا مقابلہ نہ کرنے کی وجہ سے سماجی تنہائی کا شکار تو ہوں، مگر موقع ملنے پر ان برائیوں کے خلاف جہاد میں حصہ لینے کے لئے بھی تیار ہوں۔

آئیے مایوس افراد کو فعل حرام تک پہنچنے سے روک لیں، تعمیری سوچ، مثبت عمل، میٹھے لب و لہجے اور عقیدہ آخرت کی دلنشین تفسیر وتفہیم کی اشاعت کے ذریعے۔ بے شک ایک فرد کو بھی مایوسی کے گڑھے سے نکال کر زندگی کی امنگ پیدا کر دینا، دراصل پوری انسانیت کو تقویت پہنچانے کا باعث ہے۔ لا تحزن ان اللہ معنا