عجب ہے یہ دیس!

انسانیت نے ہمیشہ ہی معروف کو پسند کیا ہے اور منکرات کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے مثال کے طور پر دنیا میں کہیں بھی جھوٹ بولنے کو پسند نہیں کیا جاتا اسی طرح جرائم ہیں جن کو دنیا نے کبھی اچھا نہیں سمجھا ہے انسان دوستی کا دم بھی بھرتا رہے اور اس کی آڑ میں دوست کے دشمن سے مل جائے اوردوست اپنے دوست کو ہر طرح کا نقصان پہنچانے کے درپہ ہوجائےاسی کو غدّاری کہا جاتاہے یہ صفت وفاداری کی ضد ہے ۔ یہ ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا ہر زمانے میں کڑی سے کڑی دی جاتی رہی ہے چاہیے وہ بادشاہوں کا زمانہ ہی کیوں نہ ہو جب بھی کسی بادشاہ کو اپنے کسی منصب دار کے بارے میں معلوم ہوجاتا کہ وہ غدّاری کا مرتکب ہوا ہے تو وہ اس کو ایسی عبرتناک سزادیتا کہ پھر کوئی ایسا کرنے کی جراءت نہ کرتا۔غدّاری کے اس فعل کو اللہ تعالیٰ نے بھی انتہائی ناپسند دیدہ قرار دیا ہےیہی وجہ ہے کہ جب کوئی مرد یا عورت نکاح کے بعد اپنے شریک حیات کے علاوہ وہی تعلق کسی اور کے ساتھ قائم کرلے تو اس کی سزا رجم ہے ۔اور ایسے لوگوں پر رحم کھانے سے بھی منع کیا گیا ہے۔

یہ بات اس تناظر میں کہنے کی ضرورت پیش آئی کہ آج کل سابق صدر پاکستان اورچیف آف آرمی ا سٹاف جرنیل پرویز مشرف کو پاکستان واپس آنے کی اجازت دی جائے یا نہ دی جائے اس موضوع پر بحث ہورہی ہے ۔جیسے گزشتہ دن ہی سینٹ میں حکومت اور اپوزیشن میں اس موضوع پر گرماگرم بحث ہوئی ۔سنیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ پرویز مشر ف کو اگر پاکستان لایا جاتاہے تو پھر اس ملک کی جیلوں کے دروازے کھول دئیے جائیں اور عدالتیں بندکردی جائیں کیونکہ پھر ان کی ضرورت نہیں اس بات کی تائید پورے سینٹ میں صرف نون لیگ کی عرفان احمد صدیقی نے کی باقی تمام بڑی جماعتوں نے سابق صدر کی پاکستان واپسی کی حمایت کا اظہار کیا اور اس کے حق میں دلیلیں دیں اور سب سے بڑھ کر چئیرمین سینٹ صادق سنجرانی نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا کہ پرویز مشرف پاکستان کا شہری ہے اور بیمار ہے، اگر آنا چاہے تو اسے آنے دیں۔

جرنیل پرویز مشرف کے جرائم کی ایک لمبی فہرست ہے جس میں کئی طرح کےسنگین جرائم درج ہیں جس میں سب سے بڑا وہی جرم ہے جس کا ذکر اوپر کے سطور میں کیا گیا ہے اس کے علاوہ آئین شکنی ، اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس کی جبری معزولی ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور سیکڑوں افراد کی امریکہ حوالگی اور اس خدمت کے عیوض لاکھوں ڈالروں کی وصولی جس کا اعتراف موصوف نے خود اپنی کتاب میں بھی کیا ہے ۔جنگ کے زمانے میں بھی دشمن ملک کے سفیر کو گرفتار کرنا یہ ایک انتہائی غیر اخلاقی عمل ہے مگر سابق صدر نے یہ حد بھی امریکہ کی محبت میں پھلانگ ڈالی ۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہےکہ کس طرح ایک جرنیل امریکی صدر جارج واکر بش کے ایک ہی کال پر وہ سجدہ ریز ہوجائے گااور پاکستان کی سرزمین افغانستا ن کے خلاف جنگ میں استعمال کرنے کی اجازت دےہالانکہ امریکی اعلیٰ حکام نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ہمیں اس طرح کی تابیداری کی امید ہر گز نہیں تھی۔ اس کے بعد ان کی دوستی صدر بش سے اتنی زیادہ بڑھی کہ امریکی ان کو مشرف نہیں بلکہ بشرف کہ کر پکارنے لگے ۔کوئی بھی ملک اپنی سرحدوں کو کسی دوسر ے ملک کے خلاف جنگ میں استعمال کرنے کی اجازت دے اور پھر ایسی اجازت جس میں اپنے شہریوں کی جان ومال سب کچھ داؤ پر لگ جائے تو اس طرح کی حرکت کا صدور کوئی انتہائی بزدل اور ملک کا غدّار ہی کرسکتا ہے۔

یہ کوئی ہوائی باتیں نہیں ہیں بلکہ سابق صد ر پر غدّاری جیسا سنگین جرم عائد کرکے عدالت نے ان کو سزائے موت تک سنا دی ہے ۔لیکن وہ صرف دو مرتبہ عدالت پیش ہوئےاور پھر علاج کے بہانے بیرون ملک فرار ہو گئے۔اگر وہ اتنے بہادر تھے تو ملک میں رہ کر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرتے مگر ہر آمر وقت کی طرح انہوں نے بھی عافیت ملک سے فرار ہوجانے میں ہی سمجھی۔ آج اگر سینٹ میں سابق صدر کے ملک میں آنے کی اجازت پر اصرار کرنے اور اس کے حق میں دلائل دینے والی جماعتیں موجود ہیں تو اس کی وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہےکہ ان جماعتوں نے آمروں کی کوکھ سے جنم لیا ہے ۔یہ عوامی جلسوں میں جمہوریت جمہوریت کا ورد کرتی رہتی ہیں مگر نام کو بھی جمہوریت ان کے اپنے اندر موجود نہیں ہے ۔ان کے اندر یہ بھی صفت ہے کہ یہ اقتدار میں آتی بھی ہیں ڈیل کے زریعے اور جب یہ آقاؤں کی توقعات پر پورا نہیں اترتی ہیں تو اسٹیبلشمنٹ ان کو لات مار کر اقتدار سےباہر نکال دیتی ہے اس کے بعد بڑی بے صبر ی سے یہ دوسری ڈیل کے لیے کوشاں ہوجاتے ہیں مثال شہباز شریف کی موجود ہے۔

30 نومبر میں پاکستان پیپلز پارٹی قائم ہوئی مگر پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی نے بھی اپنے سیاسی سفر کا آغاز جنرل ایوب خان کے زیر سایہ کیا ۔ذوالفقار علی بھٹوں ان کو ڈیڈی کہ کر پکارا کرتے تھے۔ ابتدا میں سوشلزم کے علمبردار رہے مگر اس کے بعد اسلامی سوشلزم کا نعرہ بھی لگایا۔ انہوں نے روٹی کپڑا اور مکان کا خوشنما نعرہ دیا مگر عوام کوروٹی کپڑا اور مکان نہ وہ خود دے سکے اور نہ ان کی جماعت اب تک دے سکی ہے وہ جمہوریت جمہوریت کہا کرتے تھے مگر وہ اوّل تا آخر ایک جاگیر دار تھے انہوں نے کھبی اپنی جماعت کے اندر الیکشن نہیں کرائے یہی سلسلہ آج تک جاری ہے اور اس بات کا کوئی امکان موجود نہیں ہے کہ قیادت کے لیے جمہوری انتخابات جماعت کے اندر ہوں گے۔

اسی طرح ملک کی دوسری بڑی پارٹی مسلم لیگ نواز شریف ہے ۔اس کے بانی میاں نواز شریف ہیں جر نیل محمد ضیاء الحق کے زمانے میں وزیر خزانہ بنے اس کے بعد وزیر اعیٰ پنجاب نے انہوں نے بھی آمریت کے سائے میں اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا یہ 1988 کا زمانہ تھا جب انہوں نے ملک بھر کے چوہدریوں اور سرمایہ داروں کا ایک جھتا جمع کرکے مسلم لیگ ن بنائی اپنے قیام سے لے کر آج تک اس جماعت کی زمام کار دونوں بھائیوں کے پاس ہے ان کی جماعت ایک رجواڑہ ہے جہاں کوئی دوسرا راجہ نہیں بن سکتا باقی ہر منصب اس کے لیے ہوسکتاہے ۔یہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ تو لگاتے ہیں مگر ووٹر کو عزت دینے کو تیار نہیں ہیں ان کے اندر عوام یعنی ووٹر کی ضرورت صرف جلسے جلوسوں تک ہے ورنہ عوام ان کی ترجیح میں نہ کل تھے نہ آج ہیں بلکہ ان کی ترجیح میں سرمایادار اور چوہدری ہیں جن کو صحیح معنوں میں یہ عزت دیتے ہیں۔

اب ذرا مذہبی سیاسی جماعتوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں ملک کی سب سے بڑی مذہبی اور سیاسی جماعت جمیعت علماء اسلام ہے۔ 1984 سے اب تک اس جماعت کی قیادت مولانا فضل الرّحمٰن صاحب کے پاس ہے۔ جمعیت علماء اسلام میں بھی نام کو جمہوریت موجود نہیں ۔عرصہ دراز سے مولانا فضل الرّحمٰن صاحب امارت کی کرسی پر براجمان ہیں اور ان کے بعد ان کے صاحبزادے کی باری ہے۔ اس جماعت کا اب کردار رینٹ اے کار کی طرح رینٹ اے پارٹی ہے جس جماعت کو بھی حکومت مخالف دھرنے، ریلی اور جلسے کرنے ہوں یا کوئی مہم چلانی ہو مولانا ان کو کارکنا ن کا ایک جم غفیر فراہم کردیتے ہیں اور اس کرایہ وصول کرلیتے ہیں۔ماضی قریب میں اس کی مثال آزادی مارچ، مہنگائی مارچ اور پی ڈ ی ایم وغیرہ وغیرہ ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون مولانا سے جلسے دھرنے اور مارچ کرائے پر لیتے رہے ہیں کیونکہ دونوں جماعتوں کے پاس ووٹر تو ہیں مگر سڑکوں پر مظاہرے کرنے والے کارکنان نہیں ہیں ۔اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کا بھی بھانڈا پھوٹ چکا ہے بائیس سال تک عمران خان صاحب اقتدار کے لیے جدوجہد کرتے رہے بالاآخر ایک ڈیل کے نتیجے میں ان کو اقتدار حاصل ہو ہی گیا مگر بڑے آقا اور چھوٹے آقا کی نافرمانی کی وجہ سے وہ بھی اقتدار سے الگ کردئیے گئے ہیں اور اب دوبارہ کسی ڈیل کا رستہ دیکھ رہے ہیں اس طرح یہ بھی آمریت کی پیدا وار ہیں عمران خان صاحب نے بھی بائیس سالوں میں کوئی پارٹی الیکشن نہیں کرائے ہیں وہ بھی تاحیات پارٹی کے چئیر مین ہیں۔

لیکن اس موقع پر اگر جماعت اسلامی کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ سخت ناانصافی ہوگی ۔ا س ملک کی واحد سیاسی اور مذہبی جماعت ہے جو 1943 سے یعنی اپنے قیام سے لے کر اب تک حقیقی جمہوری طریقے پر اپنا سیاسی سفر جاری رکھے ہوئے ہے مگر ظاہر ہے سورج بے نور آنکھوں کے لیے کیا معنی رکھتاہے۔ مگر عجب ہے یہ دیس کہ جہاں غدّاروں کو عزّت ملتی ہے۔ کوئی غدّار لندن میں بیٹھ کر ملک کی قسمت کے فیصلے کرتاہے کوئی دبئی میں بیٹھ کر سازش کرتاہے ۔ کوئی ملک کی سرحدیں بیچ کر دبئی فرار ہوجاتاہے ۔