ڈپریشن اور اس سے بڑھتے مسائل

ڈپریشن کیا ہے ؟ یہ ہر فرد کے قلب و ذہن میں ابھرتا ہوا ایک سوال ہے۔ ڈپریشن ایک ایسی ذہنی کیفیت کا نام ہے جس میں انسان ذہنی دباؤ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ مزید براں ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے جو نارمل سے نارمل انسان کو بھی ذہنی کمزوری میں مبتلا کر دیتی ہے۔ آج کل لوگ زیادہ تر ڈپریشن کا شکار رہتے ہیں یہ کس وجہ سے ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہیں، ایسی بے شمار پریشانیاں ہیں جو انسان کو ڈیپریشن میں دھکیل رہی ہیں۔

میرے نزدیک آج کل زیادہ تر لوگ ڈپریشن کا شکار اس لیے بھی ہو رہے ہیں کہ روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں اور مسائل بڑھتے جا رہے ہیں. نوجوان نسل پڑھ لکھ کر ڈگریاں ہاتھوں میں تھامے بے روزگاری کا شکار جگہ دھکے کھاتے رہنا بھی نوجوان نسل کی ڈپریشن کی ایک وجہ ہے۔ آج اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کے دور میں غریب خاندان پریشانی میں مبتلا ہیں۔ ایک غریب ماں باپ اپنے بچوں کو بہترین تعلیم دلوانے سے عاری ہیں۔ مہنگائی انھیں اس بات پر مجبور کر دیتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھانے کی بجائے مزدوری کے لیے بھیج دیتے ہیں اور ماں باپ اور بچے ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آج کل ڈپریشن کی ایک اور بڑی وجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی بھی ہے۔

ڈپریشن ایک ایسی موذی بیماری ہے جو بچے،نوجوان ،بوڑھے سب کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ جو بے شمار مسائل کا موجب بنتی ہے۔ ڈپریشن کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ آئے روز بڑھتی ہوئی مہنگائی پر کنڑول کیا جائے تاکہ ایک نارمل خاندان اپنی زندگی ہنسی خوشی بسر کر سکے۔ اس طرح کافی حد تک ڈپریشن کو روکا جا سکتا ہے۔

میری والدین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ڈپریشن کا شکار مت بنائیں۔ آج کل والدین کے ہاں جو زیادہ رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے۔ وہ یہ ہے کہ فلاں کی اولاد زیادہ پڑھ لکھ گئی۔ میری نہیں پڑھی۔ وہ انجنئیر، ڈاکٹر وغیرہ بن گیا۔ میرا نہیں بنا۔ یہ ایسی باتیں ہیں جو بچوں کو ڈپریشن میں مبتلا کر دیتی ہیں اور بچے خودکشی جیسے حرام موت کو بھی ترجیح دیتے ہیں۔ اپنے آپ کو ہارا ہوا انسان سمجھتے ہیں۔ والدین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے بچوں کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیں تاکہ وہ زندگی میں کامیاب و کامران ہو سکیں۔

ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے ہزاروں مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ہنستے بستے گھر اجڑ جاتے ہیں۔ ڈپریشن کو کم کرنے کے لیے میری سب سے گزارش ہے کہ خاندانی مسائل کو کم کیا جائے۔ ہنسی خوشی زندگی بسر کی جائے۔ رشتوں کے تقدس کو برقرار رکھا جائے۔ ایک دوسرے کی بات کو برداشت کیاجائےتاکہ اس بیماری سے نجات حاصل کی جاسکے۔