انا للہ وانا الیہ راجعون

شیر جنگل کا بادشاہ ہے وہ انڈے دے یا بچے یہ اس کی مرضی ہے۔ اسی طرح ہمارے حکمران بھی کسی جنگل کے بادشاہ ہیں لیکن ان کی خصوصیت یہ ہے کہ انڈے بھی دیتے ہیں اور بچے بھی۔ اپنے کپڑے بیچ کر آٹا دینے کا دعدہ کرتے ہیں اور عوام کے کپڑے اتارکر انہیں پٹرول دیتے ہیں۔ قائد اعظم کے پاکستان میں قائد اعظم صرف کرنسی نوٹوں پر پرنظر آتےہیں ان کے فرمودات اور نظریات کو ہم نے ہوا میں اڑا دیا ہے۔۔ہمارے جنگل کے جو بادشاہ ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑی خصوصیات سے نوازا ہے۔ یہ جالب کے اشعار پڑھتے ہیں اور پیروکار چانکیہ کے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ظلم نے اپنے پنجے اس طرح گاڑھ لیے ہیں کہ اس کے شکنجے سے بایر نکلنا اب ناممکن نظر آرہا ہے۔

غالب نے کہا تھا کہ

قرض کی پیتے تھے مے، لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ قرض کی مے پیے جارہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہماری سوئی قسمت جاگ جائے گی۔ قومیں اس طرح نہیں بنتی ہیں۔ ہم ان کے امتی ہیں جو مشکل وقت میں اپنے پیٹ پر ایک کی جگہ دو پتھر باندھتے تھے۔ ادھر ہمارے بادشاہوں کا حال دیکھ لیں قرض کے لیے ایک ملک سے دوسرے ملک کا چکر لگارہے ہیں لیکن ان کے ٹھاٹ باٹ ہی کم نہیں ہورہے ہیں۔ حضور ! قربانی کے لیے کیا صرف عوام ہی رہ گئے ہیں اور حق بات تو یہ ہے کہ عوام کا جو حال کردیا گیا ہے اب ان کی قربانی حلال بھی نہیں رہی ہے۔

ہمارے دانشوروں نے بہت چورن بیچ لیا ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں ہم پائندہ قوم ہیں صحیح بات تو یہ ہے کہ ہم آج تک قوم ہی نہیں بن سکے ہیں۔ ہم نہ زندہ ہیں اور نہ ہی پائندہ ہم صرف چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔ ہمیں تو اس بات پر بھی کوئی شرمندگی نہیں ہے کہ آج بنگلہ دیش بھی ہم سے ترقی میں آگے نکل گیا۔ ہم قومی ترانے بناتے رہے انہوں نے قومی خزانے بنالیے۔ 75 سالوں سے خوابوں کے سوداگر ہمیں جھوٹے خواب فروخت کررہے ہیں۔ ان سے بس یہی کہنا ہے کہ بس کردو بس

کوئی ایک چیز بھی ایسی نظر نہیں آتی ہے کہ ہم کہہ سکیں ہمارا آنے والا کل روشن ہے۔ کوئی ایک ایساشخص نظر نہیں آتا جو اس ریوڑ کو قوم بنادے۔ ہر چیز زوال پذیر ہے۔ سب کا اپنا اپنا ایجنڈا ہے۔ میڈیا سے لے کر سبزی والا تک برائے فروخت ہے۔ بحیثیت مجموعی ہم تاریک راہوں کی طرف گامزن ہیں۔ پٹرول پچاس روپے مہنگا ہوجائے یا سو روپے قوم سورہی ہے۔ یہ لائن بھی لگاتے ہیں تو اس لیے کہ پمپس بند ہوجائیں گے تو پٹرول نہیں ملےگا۔ دالیں مرغی کے داموں فروخت ہورہی ہیں۔ لوگوں کے پاس مردوں کے تجہیز و تکفین تک کے لیے پیسے نہیں لیکن ان کی بے حسی اور صبر کو سلام ہے کہ سڑکوں پر نکل کر ایک نعرہ تک لگانے کو تیار نہیں ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 22 کروڑ چلتی پھرتی لاشیں ہیں جنہیں چند طاقتور اپنا ایندھن بنائے ہوئے ہیں۔

ہم نے تو سنا تھا کہ جمہوریت میں بادشاہ سے پوچھ لیا جاتا ہےکہ جناب آپ بادشاہ ضرور ہیں لیکن ہمارے دم سے ہیں اس لیے یہ نہیں ہوسکتا کہ انڈے بھی آپ دیں اور بچے بھی لیکن ہماری جمہوریت بھی دنیا سے نرالی ہے۔ یہاں بادشاہ کے اوپر بھی ایک بادشاہ ہوتا ہے۔ جو نظر نہیں آتا لیکن سب اس کے تابع ہوتے ہیں۔ بادشاہ، قاضی، صحافی، وزیر سب اس کے اشارے کے منتظر رہتے ہیں یہ غیر مرئی بادشاہ جو کہہ دے وہ حرف آخر ہوتا ہے۔ اس بادشاہ کو صرف عوام کا خوف ہوسکتا ہے لیکن وہ اس حوالے سے بالکل مطمئن ہے کہ یہ جو 22 کروڑ ہیں جہل کا نچوڑ ہیں۔ اس لیے جنگل بھی اس کارہےگا بادشاہ بھی اسی کا اور حکم بھی اس کا ہی چلناہے۔ باقی رہ گئے عوام تو ان کےلیے ہم انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ ہی لیں تو بہتر ہے۔